نبی کریمﷺ بحیثیت مثالی شوہر
وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۰ۚ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۱۹ [سورۃالنساء ٤: ۱۹]
(اپنی بیویوں سے) اچھے طریقے سے بودوباش رکھو، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو، اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے۔
ازواج مطہرات:
۱: خد یجہ بنتِ خُویلد رضی اللہ عنھا
۲: عائشہ بنتِ ابی بکر رضی اللہ عنھا
۳: حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنھا
۴: سودہٗ بنت زمعۃ رضی اللہ عنھا
۵: زینب بنت جعش رضی اللہ عنھا
۶: زینب بنت خزیمہ رضی اللہ عنھا
۷: ا م سلمہ ہندبنت ابی اُمیّہ رضی اللہ عنھا
۸: ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان رضی اللہ عنھا
۹: میمونہ بنت الحارث بن حزن رضی اللہ عنھا
۱۰: جویریہ بنت الحارث بن ابی ضرار رضی اللہ عنھا ‘ ان کا نام ’’ بَر ۃ ‘‘ تھا ۔
۱۱: صفیہ بنت حُیی رضی اللہ عنھا
وفات کے وقت 9 ازواج مطہرات موجود تھیں۔
دو ازواج، حضرت خدیجہ اور زینب بنت خزیمہ پہلے فوت ہوئیں۔
خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ :
تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو:
بہترین کون ؟
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ((خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي، وَإِذَا مَاتَ صَاحِبُكُمْ فَدَعُوهُ )). [سنن الترمذی: 3895، صحیح الجامع: 3314]
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے خیر باد کہہ دو، یعنی اس کی برائیوں کا ذکرنہ کرو“
*ہمارے معاشرے کی ابتر صورت حال (سعودی عرب میں شرح طلاق 21% تک پہنچ چکی ہے۔)
1۔ روزانہ کچھ وقت دیتے، سلام کہتے ، دُعا دیتے اور اظہار محبت کرتے
صبح کا معمول:
ابن عباس رضی اللہ عنہ کان إذا صلّی الصبح جَلَسَ فی مُصَلَّا ثم یدخُل علی نسآئہ امرءۃً امرءۃً، یُسَلّم علیھن ویدعولھن۔۔۔۔۔ [الطبرانی، الأوسط، 8764، سکت عنہ الحافظ]
پچھلے پہر(شام ) کا معمول:
عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا انصرف من العصر دخل على نسائه ، فيدنو من إحداهن ، فدخل على حفصة ، فاحتبس أكثر ما كان يحتبس.
ام المومنینعائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز سے فارغ ہو کر اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے اور ان میں سے ہر ایک کے قریب بھی بیٹھتے ۔ ایک دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے اور معمول سے زیادہ کافی دیر تک ٹھہرے رہے ۔
[صحیح بخاری: 5216]
خلاصہ: صبح صرف سلام، دُعاکرتے، خیریت دریافت فرماتے، محبت فرماتے۔۔۔۔
شام نشست فرماتے،قریب ہو کر بیٹھتے، گفتگو کرتے، محبت فرماتے۔۔۔۔۔
اکثر معمول:
عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا ابْنَ أُخْتِي، كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُفَضِّلُ بَعْضَنَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْقَسْمِ مِنْ مُكْثِهِ عِنْدَنَا، وَكَانَ قَلَّ يَوْمٌ إِلَّا وَهُوَ يَطُوفُ عَلَيْنَا جَمِيعًا، فَيَدْنُو مِنْ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْ غَيْرِ مَسِيسٍ حَتَّى يَبْلُغَ إِلَى الَّتِي هُوَ يَوْمُهَا فَيَبِيتَ عِنْدَهَا، وَلَقَدْ قَالَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ حِينَ أَسَنَّتْ وَفَرِقَتْ أَنْ يُفَارِقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَوْمِي لِعَائِشَةَ، فَقَبِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، قَالَتْ: نَقُولُ فِي ذَلِكَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى، وَفِي أَشْبَاهِهَا أُرَاهُ، قَالَ: وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا سورة النساء آية 128 . [سنن ابی داؤد: 2135]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ازواج مطہرات کے پاس رہنے کی باری میں بعض کو بعض پر فضیلت نہیں دیتے تھے اور ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے پاس نہ آتے ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے قریب ہوتے، محبت کا اظہارفرماتےہاں جماع نہ کرتے، اس طرح آپ اپنی اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور اس کے پاس رات گزارتے، اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عمر رسیدہ ہو گئیں اور انہیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں الگ کر دیں گے تو کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میری باری عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے رہے گی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات قبول فرما لی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ہم کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ میں اور اسی جیسی چیزوں کے سلسلے میں آیت کریمہ: «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا» (سورۃ النساء: ۱۲۸) نازل کی: اگر عورت کو اپنے خاوند کی بدمزاجی کا خوف ہو ۔
۔آج کے مصروف دور میں اس پر عمل کی صورت
۔ ایک فون کال، SMS، شیرنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
2۔ تہجد کے وقت بات چیت فرمالیتے
عن عائشة رضى الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا صلى { سنة الفجر} فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع حتى يؤذن بالصلاة. [صحیح البخاری: 1161]
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتےتو اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کو نماز کی اطلاع دی جاتی ۔
3۔ حق زوجیت ادا فرماتے
عن أنس بن مالك ، قال :كان النبي صلى الله عليه وسلم يدور على نسائه في الساعة الواحدة من الليل والنهار ، وهن إحدى عشرة. قال: قلت لأنس: أوكان يطيقه ؟قال :كنا نتحدث أنه أعطي قوة ثلاثين.
سیدنا انس بن مالک نےفرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس جایا کرتے اور وہ گیارہ تھیں ۔ ( نو منکوحہ اور دو لونڈیاں ) راوی نے کہا ، میں نے انس سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت رکھتے تھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے
[صحیح البخاری: 268، صحیح مسلم: 309]
4۔ سفر میں ساتھ لے جاتے
عن عائشة أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج أقرع بين نسائه ، فطارت القرعة لعائشة وحفصة ، وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان بالليل سار مع عائشة يتحدث ، فقالت حفصة ألا تركبين الليلة بعيري وأركب بعيرك تنظرين وأنظر ، فقالت بلى فركبت فجاء النبي صلى الله عليه وسلم إلى جمل عائشة وعليه حفصة فسلم عليها ثم سار حتى نزلوا وافتقدته عائشة ، فلما نزلوا جعلت رجليها بين الإذخر وتقول يا رب سلط على عقربا أو حية تلدغني ، ولا أستطيع أن أقول له شيئا
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے لئے قرعہ ڈالتے ۔ ایک مرتبہ قرعہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے نام نکلا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت معمولاً چلتے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلتے ۔ ایک مرتبہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ آج رات کیوں نہ تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر تاکہ تم بھی نئے مناظر دیکھ سکو اور میں بھی ۔ انہوں نے یہ تجویز قبول کر لی اور ( ہر ایک دوسرے کے اونٹ پر ) سوار ہو گئیں ۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کے اونٹ کے پاس تشریف لائے ۔ اس وقت اس پر حفصہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا ، پھر چلتے رہے ، جب پڑاؤ ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس میں نہیں ہیں ( اس غلطی پر عائشہ کو اس درجہ رنج ہوا کہ ) جب لوگ سواریوں سے اتر گئے تو ام المؤمنین نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لئے اور دعا کرنے لگی کہ اے میرے رب ! مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کر دے جو مجھ کو ڈس لے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کچھ کہہ نہیں سکتی تھی( کیونکہ یہ حرکت خود میری ہی تھی )۔ [صحیح بخاری: 5211، صحیح مسلم: 2445]
5۔ کھیل ، تفریح، فزیکل مقابلہ:
بیوی کے ساتھ دوڑ کا منفرد انداز
6۔ انتہائی وفادار، سابقہ تعلق کو یاد رکھنے والے:
عن عائشة رضى الله عنها قالت ما غرت على أحد من نساء النبي صلى الله عليه وسلم ما غرت على خديجة ، وما رأيتها ، ولكن كان النبي صلى الله عليه وسلم يكثر ذكرها ، وربما ذبح الشاة ، ثم يقطعها أعضاء ، ثم يبعثها في صدائق خديجة ، فربما قلت له كأنه لم يكن في الدنيا امرأة إلا خديجة. فيقول إنها كانت وكانت ، وكان لي منها ولد.
ام المؤمنینعائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوںمیںجتنی غیرت مجھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی ، حالانکہ انہیں میں نے دیکھابھی نہیں تھا ، اس کی وجہ یہ تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کاذکربکثرت فرمایاکرتے تھے اور اگر کوئی بکری ذبح کرتے تو اس کےحصےکر کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوںکو بھیجتے تھے میں نے کئی بارحضور ﷺسے کہا : جیسے دنیا میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں ! ؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اوروہ ایسی تھیں اور اسی سے میری اولاد ہے نا ۔
[صحیح بخاری: 3818]
2۔ عائشہ کان رسول اللہﷺ إذا ذکر خدیجۃ لم یکن یَسْأم من ثناء علیھا، والاستغفار لَھَا۔
[الطبرانی الکبیر:16 / 319، حسنہ]
i۔ ذکرِخیر، تعریف ۔
ii۔ اولاد کا تعلق ۔
iii۔ دعائے مغفرت ۔
بعض لوگوں کا رویہ۔۔۔۔۔۔۔ مرحومہ کی غیبت۔۔۔۔۔۔ موجودہ کی تعریف
7۔ بیوی کی تعلق دار خواتین سے حسن سلوک
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اسْتَأْذَنَتْ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أُخْتُ خَدِيجَةَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِيجَةَ فَارْتَاحَ لِذَلِکَ فَقَالَ: ۰(( اللَّهُمَّ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ ! ؟)) فَغِرْتُ فَقُلْتُ وَمَا تَذْکُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ حَمْرَائِ الشِّدْقَيْنِ هَلَکَتْ فِي الدَّهْرِ فَأَبْدَلَکَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا !؟
ام المؤمنینسیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ کی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ کا اجازت مانگنا یاد آ گیا تو آپ اس کی وجہ سے خوش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ یہ تو ہالہ بنت خویلد ہیں مجھے یہ دیکھ کر رشک آ گیا میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی بوڑھی عورتوں میں سے ایک بھاری گا لوں والی عورت کو یاد کرتے رہتے ہو، ایک لمبی مدت ہوئی وہ انتقال کر چکیں تو اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بہتر بدل عطا فرمایا !؟ ۔
[صحیح مسلم: 2436]
عن انس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذھبوا بہ إلی فلانۃ۔۔۔۔۔۔
[الادب المفرد : 232]
۔بعض لوگوں کا مذموم رویہ ۔۔۔۔ بیویوں کی سہیلیوںں بلکہ بھائیوں، بہنوں اور والدین سے بدسلوک
8۔ نئی شادی پر آپﷺ کے گھرانے کا منفرد ماحول:
1۔ قال أنس بن مالك أنا أعلم الناس بهذه الآية آية الحجاب ، لما أهديت زينب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كانت معه في البيت ، صنع طعاما ، ودعا القوم ، فقعدوا يتحدثون ، فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يخرج ، ثم يرجع ، وهم قعود يتحدثون ، فأنزل الله تعالى { يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه} إلى قوله { من وراء حجاب} فضرب الحجاب ، وقام القوم
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس آیت یعنی حجاب، پردہ والی آیت ( کے شان نزول ) کے متعلق میں سب سے زیادہ جانتا ہوں ، جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور وہ آپ کے ساتھ آپ کے گھر ہی میں تھیں تو آپ نے کھانا( ولیمہ ) تیار کروایااور قوم کو بلایا ( کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ) لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر جاتے اور پھر اندر آتے ( تاکہ لوگ اٹھ جائیں ) لیکن لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ کہ ” اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو ۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں ( کھانے کے لئے ) آنے کی اجازت دی جائے ۔ ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو “ ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” من وراء حجاب “ تک، اس کے بعد پردہ ڈال دیا گیا اور لوگ کھڑے ہو گئے ۔
[صحیح البخاری: 4792]
2۔ ہر ہر گھر میں سلام ’’جعل یمرعلی نسائہ‘‘
[صحیح مسلم: 1428]
۔ دوسری شادی کے موقع پر سابقہ بیوی کا خیال
۔ پہلی بیوی کا طرز عمل اور حسن سلوک
۔ گھر میں سلام
۔ خیریت دریافت کرنا
9۔ بیوی سے محبت کا اظہار فرماتے
۔۔
[صحیح مسلم: 2435]
2۔ عن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل ، فأتيته فقلت:أى الناس أحب إليك؟ قال: " عائشة ". فقلت : من الرجال؟ فقال :" أبوها ". قلت : ثم من ؟ قال :" ثم عمر بن الخطاب ". فعد رجالا۔
سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ ذات السلاسل کے لیے بھیجا ( عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس سے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) سے میں نے پوچھا ، اور مردوں میں ؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے ، میں نے پوچھا ، اس کے بعد ؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی آدمیوں کے نام لیے ۔ [صحیح بخاری: 3662]
۔ نام لے کر محبت کا اظہار کرنا چاہیئے
۔ کھل کر بتانا چاہیئے
۔ محبت کا اظہار نہ کرنا عورت کی بے راہ روی کا سبب
۔خاوند کی بے رخی اور اغیار کی چالاکی
10۔ گھر سے الوداع ہوتے ہوئے اظہار محبت
1۔ -عن عائشة أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قبَّلَ بَعضَ نسائِهِ ، ثمَّ خرجَ إلى الصَّلاةِ ولم يتَوضَّأ ، قالَ : قلتُ : مَن هيَ إلَّا أنتِ ؟ قالَ : فضحِكَتْ۔
[سنن الترمذی: 79، سنن ابی داؤد: 178]
2۔ عن عائشة رضى الله عنها قالت :كان النبي صلى الله عليه وسلم يقبل ويباشر ، وهو صائم ، وكان أملككم لإربه.
ام المؤمنین سیدہعائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے لیکن ( اپنی ازواج کے ساتھ ) بوس و کنار اور مباشرت ( اپنے جسم سے لگا لینا ) کر لیتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے ۔
11۔ بیوی کی کھانے پینے والی چھوڑی ہوئی اشیاء کا محبت بھرا استعمال
-عن عائشۃ رضی اللہ عنہ قالت: كنتُ أشربُ وأنا حائضٌ ، ثم أُنَاوِلُه النبيَّ- صلى الله عليه وسلم ،فيَضَعُ فاه على موضِعِ فيَّ، فيشرب، وأَتَعَرَّقُ العَرَقَ وأنا حائضٌ ، ثم أُنَاوِلُه النبيَّ صلى الله عليه وسلم ، فيَضَعُ فاه على مَوضِعِ فيَّ .
[صحیح مسلم: 300]
۔عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره ، حتى إذا كنا بالبيداء أو بذات الجيش انقطع عقد لي ، فأقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه ، وأقام الناس معه ، وليسوا على ماء ، وليس معهم ماء فأتى الناس إلى أبي بكر الصديق فقالوا ألا ترى ما صنعت عائشة أقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم وبالناس ، وليسوا على ماء ، وليس معهم ماء؟ فجاء أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع رأسه على فخذي قد نام ، فقال حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس ، وليسوا على ماء ، وليس معهم ماء قالت عائشة فعاتبني أبو بكر ، وقال ما شاء الله أن يقول ، وجعل يطعنني بيده في خاصرتي ، ولا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي ، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حین أصبح على غير ماء ، فأنزل الله آية التيمم فقال أسيد بن حضير ما هي بأول بركتكم يا آل أبي بكر. قالت فبعثنا البعير الذي كنت عليه فإذا العقد تحته.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش مقام تک پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کر وانے کے لیے وہیں قیام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا ۔ وہاں کہیں پانی نہیں تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی پانی نہیں تھا ۔ لوگ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : ملاحظہ نہیں فرماتے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کر رکھا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں ٹھہرا لیا اور لوگوںکو بھی ، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس پانی ہے ؟ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ( میرے یہاں ) آئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرمبارک میری ران پر رکھ کرسو ئے ہوئےتھے، کہنے لگے : تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب کو روک لیا ، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے ساتھ پانی ہے !؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا مجھے کہا اور ہاتھ سے میری کو کھ میں کچوکے لگائے ۔ میں نے صرف اس خیال سے کوئی حرکت نہیں کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو بیدار ہوئے، کہیں پانی کا نام و نشان نہ تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی تو اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آل ابی بکر ! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے ۔ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرناتی ہیں : پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچےسے مل گیا ۔ [صحیح البخاری: 4607]
12۔ مخصوص ایام میں بھی اظہار محبت:
۔ مخصوص ایام میں بالکل قطع تعلقی یہودی رویہ
۔ مخصوص ایام میں جماع گندگی اور ناپاکی کا مظہر
۔راہ اعتدال ۔۔۔۔۔ سنت نبوی۔۔۔۔
۔ مخصوص ایام میں عورت کی نفسیاتی کیفیت اور پیچیدگیاں
۔مخصوص ایام میں طلاق کی ممانعت
13۔ خوبصورت نام سے بلانا:
عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها " يا عائشة ، هذا جبريل يقرأ عليك السلام ". فقالت وعليه السلام ورحمة الله وبركاته. ترى ما لا أرى. تريد النبي صلى الله عليه وسلم.
ام المؤمنین سیدہعائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ” اے عائشہ ! یہ جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں ، تم کو سلام کہہ رہے ہیں ۔ ‘ ‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا :’’ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ‘‘ آپ وہ چیزیں دیکھتے ہیں جنہیں میں نہیں دیکھ سکتی ، عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ [صحیح بخاری: 3217]
۔عن عائشۃ قالت دخل الحبشۃ المسجد یلعنون، فقال لی النبیﷺ یا حمیرا، أتحسبین ان تنظری إلیھم؟ فقلت: نعم۔
[النسائی، الکبریٰ: 8951، الصحیحۃ: 3277]
۔ عن عائشۃ لما ولد عبداسللہ بن الزبیر أتیت بہ النبیﷺ فتفل فی فیہ، فکان أول شئ دخل جوفہ وقال: ھو عبداللہ وأنت ام عبداللہ فما زلتُ أکنّٰی بھا وما ولدت قطُّ۔
[ابن حبان، 7117، قال الارنؤوط إسنادہ قوِیٌّ]
۔ہمارا رویہ مختلف نام بگاڑ کر رکھنا
14۔ راہ اعتدال ضروری ہے
1۔ دیگر اقارب کی حق تلفی نہ ہو، والدین کے حقوق
2۔ دینی معاملات میں بیوی کی تربیت، آخرت کی فکر
3۔ غیر شرعی معاملات میں اصول پر پابندی
تعارف قلتِ کلمۃ۔۔۔۔۔
15۔ جامع دعا
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۷۴
اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا ۔ [الفرقان ٢٥:٧٤]
0 comments :
Post a Comment