Latest: Add Latest Article Here | Recommended: Add Recommended Article Here

Ilm o Adab website you have Seerat un Nabi PBUH, Quotes of the Day, Azkar e Masnoona, Stories, Model Speech like waldain ki azmat and much more.


Showing posts with label Model Speech. Show all posts
Showing posts with label Model Speech. Show all posts

Sunday, 4 February 2018


فضیلتِ علم

علم کی فضیلت


نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم


‘‘ يَرْفَعِ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ’’
وَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللہُ لَہٗ بِہٖ طَرِیْقًا اِلَی الجَنَّۃِ (او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم)۔

سبب کیا ہے؟ تو اس کو خود سمجھتا ہے
زوالِ بندۂ مؤمن کا، بے زری سے نہیں 
جہاں میں جوہر اگر کوئی آشکارا ہوا
قلندری سے ہوا ہے، تو نگری سے نہیں

محترم سامعین!۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ                   

آج میں آپ حضرات کے سامنے ’’علم کی فضیلت‘‘ کے موضوع پر چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سامعین گرامی۔۔۔۔۔۔!۔
علم کا معنی آتا ہے جاننے کے چنانچہ علماء اور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت پر اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے چوبیس گھنٹے کی زندگی شریعت کے احکام کے مطابق گزار سکے اور حلال اور حرام پاکی اور ناپاکی میں تمیز اور فرق کر سکے۔
حضورﷺ کا ارشاد ہے ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٗ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

سامعین محترم!۔۔۔۔
علم ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے انسان اور حیوان میں تمیز کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اور علم ہی وہ نعمت ہے جس کے بدولت آدم علیہ السلام مسجود ملائکہ بنتا ہے۔۔۔۔۔ ہاں، ہاں علم ہی وہ کیمیائے سعادت ہے جو مخلوق کو خالق سے اور عبد کو معبود سے قریب تر کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
‘‘قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۹ۧ’’
[زمر: 9]

یعنی جاننے والا اور نہ جاننے والے دونوں کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ حدیث میں آتا ہے جب کوئی آدمی علم کے راستے کو اختیار کرتا ہے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ جنت کے راستے کو آسان کر دیتے ہیں اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔۔۔۔۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔

رَضِیْنَا قِسْمَۃَ الْجَبَّارِ فِیْنَا
لَنَا عِلْم وَلِلْجھَّالِ مَالُ

یعنی ہم اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر راضی ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے تو علم مقرر کیا گیا اور جاہلوں کے لئے مال۔ شیخ سعدی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے:۔

برو دامن علم گیر ستوار
کہ علمت رساند بدار القرار

جاؤ علم کے دامن کو مضبوطی سے تھام لو کیونکہ تمہیں جنت میں پہنچائے گا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں علم نافع عطا فرمائے اور دین متین کی عالی محنت کے لئے قبول فرمائے۔ (آمین)۔

وما علینا الا البلاغ المبین
Read More >>

Saturday, 3 February 2018


اسلام میں عورت کی کیا حیثیت ہے

اسلام میں عورت کا مقام

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد! فأعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً
(صدق اللہ العظیم)
محترم سامعین!۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج میری تقریر کا موضوع ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ کے عنوان سے معنون ہے۔

سامعین گرامی۔۔۔۔۔۔!۔
لفظ ’’عورت‘‘ کا معنی لغت میں ’’چھپانے کی چیز‘‘ کے ہیں۔۔۔۔۔ اس لغوی معنی کو سنتے ہی ایک ذی شعور انسان جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ادنیٰ عقلل و فراست سے نوازا بخوی جان لے گا کہ جہاں عورت ہو گی وہاں پردہ ضرور ہو گا۔۔۔۔ گویا عورت اور پردہ لازم اور ملزوم ہے۔۔۔۔۔ اور یہی پردہ شریعت کو مطلوب ہے۔۔۔۔ جو معاشرے کی طہارت اور ماحول کی نظافت کا ضامن ہے ۔۔۔۔ ہاں! پردہ جس کے اندر بقائے انسانیت اور احیائے نسلیت کا راز مضمر ہے۔۔۔۔۔ جس کے بغیر اس کائنات میں امن و امان اور سکون و آشتی کاقیام ناممکن ہے۔

سامعین مکرم۔۔۔۔۔!۔

عورت ذات کو اسلام نے جو مرتبہ اور مقام عطا فرمایا ہے اس سے دیگر مذاہب تہی دامن ہے۔۔۔۔۔ چنانچہ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اسلام سے قبل لفظ ’’عورت‘‘ ناقابل سماعت تھی۔ عورت کی قدر راہ پڑی چیز سے زیادہ نہ تھی۔۔ بچیوں کو زندہ درگور کیا جانا معیوب نہ تھا۔۔۔ عورت نجاست کا ڈھیر اور شیطان کی نمائندہ تھی۔۔۔ ایّام مخصوص میں ان کے لیے الگ جگہ مقرر تھی۔۔۔۔ بچی کی ولادت کی خبر انتہائی ناگوار تھی۔۔۔۔ عورت ذات محض ایک کھلونا تھا۔۔۔۔ بے حیائی اور بے پردگی سرِ عام تھی۔۔۔۔۔ ہر گلی اور کوچے میں عورت کی عزت کا نیلام تھا۔

لیکن میرے محبوبﷺ کے آمد مسعود سے عورت کو دنیا میں جینے کا صحیح حق ملا۔۔۔ معاشرے میں باعزت مقام ملا۔۔۔ کہیں بیٹی، کہیں بہن، کہیں بیوی اور کہیں ماں جیسی عظیم الشان صفات ملی۔۔۔۔ عورتوں کو گھر کی مالکن ہونے کا شرف ملا۔۔۔ تین بچیوں کی تربیت کرنے پر جنت کی نوید ملی۔۔۔۔ ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت ملی۔

سامعین محترم۔۔۔۔۔۔۔!۔

مجھے فخر ہے کہ دینِ اسلام عورت ذات کے متعلق کسی بھی قسم کی تحقیر، توہین اور تذلیل آمیز نظریات نہیں رکھتا۔۔۔۔ بلکہ مجھے کہنےدیجیئے! اس عورت ذات نے مجھے زندگی عطا کی ہے، لہٰذا میں اس سے زندہ رہنے کا حق نہیں چھین سکتا۔۔۔ اس نے میری نجاستیں دھو کر مجھے انگلی سے پکڑ کر زمین پر چلنے کا طریقہ سکھایا، لہٰذا میں اس کے پاؤں تلے سے زمین نہیں چھین سکتا۔۔۔۔ اس کا ودیعت کردہ خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے، لہٰذا شیطان کا دروازہ یا گناہوں کا محل نہیں کہہ سکتا۔۔۔ اس نے اپنی زندگی کی ہر سانس کے ساتھ مجھے دعائوں سے نوازا ہے، لہٰذا میں اسے حقارت آمیز گالیاں نہیں دے سکتا۔۔۔۔ اس نے مجھے کامل و مکمل بنایا ہے، لہٰذا میں اسے نامکمل نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔ اس نے مجھے گھر کی پرسکون اور پر امن ماحول عطا کی ہے، لہٰذا میں اسے فتنہ و فساد کی جڑ قرار نہیں دے سکتا۔۔۔۔ یہ میرا لباس ہے، لہٰذا میں اسے نگِ انسانیت کا طعنہ نہیں دے سکتا۔

 معزز سامعین۔۔۔۔!۔

آج پھر اس صنفِ نازک پر مختلف انواع کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔۔۔۔ آزادیٔ نسواں کے پُر فریب نعروں سے ان کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔۔۔ کہیں فیشن اور کہیں مقابلۂ حسن کے نام پر ان کو سرِ عام ننگا کیا جارہا ہے۔۔۔ ہر کس و ناکس عورت ذات کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔۔۔۔ اور آزادی کے نام پر عورت کو بہن ، بیٹی، بیوی اور ماں بننے کے اعزاز سے روکا جارہا ہے۔۔۔ عورتوں کو کلبوں اور محفلوں میں نچایا جارہا ہے۔۔۔ ان کی عزت و ناموس کو ہر گلی کوچے میں لوٹا جا رہا ہے۔۔۔۔ باریک کپڑوں میں ملبوس ہونا قابلِ عزت مانا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ بھری سڑک میں مختصر لباس میں چلنے پھرنے کو ترقی کہا جا رہا ہے۔۔۔۔ ’’الامان، الحفیظ‘‘ اب تو ان سے ہاکی اور کرکٹ بھی کھلوایا جا رہا ہے۔۔۔ الغرض بنت ہوا کو ذلیل و خوار کیا جارہا ہے ۔۔۔۔ جس کو آزادیٔ نسواں کا نام دیا جا رہا ہے۔

شاعر کہتا ہے۔۔۔۔!۔
آزادی یہ نہیں کہ عورت بے حیا ہو جائے
فیشن یہ نہیں کہ عورت بے قبا ہو جائے 
اسلام ہی ہے سب کے لئے مثل چراح بہنو!۔
روشنی یہ نہیں کہ عورت بے ضیاء ہو جائے

حاضرین مجلس۔۔۔!۔

یہی ناسور اور ناپاک اور عیاش لوگ قرآنی احکام میں تاویل کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ علماء ربانیین کو دقیانوسیت کے القاب دے رہے ہیں۔۔۔۔۔ عورتوں کو ان کے اصلی مقام اور مرتبہ بتانے والوں کو تنگ نظر کہا جا رہا ہے۔۔۔۔ عورتوں کو ان کا حق دلوانا ظلم بتایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے مسلم حکمران بھی ان ناپاک نعروں کے مستی میں جھوم رہے ہیں۔۔۔۔ مسلمانوں کے نام نہاد دانشور غیر مسلموں اور فرنگیوں کی تقلید میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔

افسوس میرے مسلمان بھائیو! اب تو ہوش کے ناخن لیجئے۔۔۔۔ اب تو اپے ضمیر کو جھنجھوڑیئے۔۔۔۔۔ خدارا اب تو اپنی قومی حمیت اور ایمانی غیرت سے کام لیجئے۔۔۔۔۔ ورنہ سنیئے! تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔۔ تمہیں عزیز الحق مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار جگاتے ہیں۔۔۔۔!۔

 دستِ قدرت نے بتا کب حسن کو عریاں کیا
ابر میں پانی، شرر کو سنگ میں پنہاں کیا
مشک کو نافے میں رکھا اور بوکوپھول میں
پھول کو کانٹے میں رکھ کر حفظ کا سامان کیا
درصدف میں، سیم و زر کو کان میں مخفی کیا
جب کبھی باہر نکالا در بدر حیران کیا
حسن کی ہر اک ادا جب اس طرح مستور تھی
حسنِ زن کو تو نے ظالم کس لئے عریاں کیا

وما علینا الّا البلاغ المبین
Read More >>

Saturday, 27 January 2018





سکون قلب


نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرھیم
‘‘اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝۲۸ۭ’’[الرعد: 28]۔
صدق اللہ العظیم

وقال النبیﷺ ’’مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ‘‘ (اوکما قال علیہ السلام)۔

نہیں ہے ابتداء تیری ، نہیں ہے انتہا تیری
عبادت کر رہے ہیں روز شب ارض و سماء تیری
حجر میں، پھول میں، کانٹو میں، ذروں میں فضاؤں میں
نظر آتی ہے ہر سو شاہدِ مطلق ادا تیری
تیری تسبیح  پڑتے ہیں فلک والے، زمیں والے
ہو کی سرسراہٹ میں بھی ہے حمد و ثنا تیری

محترم سامعین کرام

السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج میں آپ حضرات کے سامنے ’’سکون قلب‘‘ کے عنوان کا سہارا لے کر چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سامعین کرام


آج دنیا میں ہر انسان سکون قلب کا متلاشی ہے ہر نوع انسانی اس جستجو اور سعی میں ہے کہ سکی طرح اس کو ’’سکون قلب‘‘  حاصل ہو جائے۔ چنانچہ 
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔ خوبصورت عمارتوں اور بنگلوں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بینک بیلنس کی بہتات میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مال و دولت کی کثرت میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدارت وزارت میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تجارت و زراعت میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زرق برق کپڑوں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نرم گداز بستروں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نت نئے فیشنوں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  سونا چاندی کے چمک دمک میں تلاش کیا

لیکن رب کائنات فرماتے ہیں! ارے سکون قلب کے متلاشیو! کہاں بھٹکتے پر رہے ہو ۔۔۔۔ سنو سنو! ’’اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝‘‘ میں نے تو دل کا چین اور سکون اپنی یاد اور ذکر میں رکھا ہے، اگر سکون قلب چاہتے ہو تو مجھ سے دل لگا ؤ۔

شاعر نے کیا خوب کہا ۔۔۔۔۔۔

نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے

سامعین محترم

حضرت ابوبکر ورّاق رحمہ اللہ تعالیٰ بڑے پائے کے بزرگ گزرے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ قبل پر چھ ۶ قسم کی حالتیں وارد ہوتی ہیں ۔ یعنی حیات اور موت ۔۔۔۔ صحت اور بیمار۔۔۔۔۔ بیداری اور نیند۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابوبکر ورّاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قلب کی حیات ہدایت ہے۔۔۔ اگر ہدایت ہو گئی ہے تو سمجھ لیں کہ دل زندہ ہے۔۔۔۔ اور قلب کی موت گمراہی و صلالت ہے۔۔۔۔ اگر کسی قسم کی دل میں گمراہی پدیا ہو جائے تو سمجھ لیں کہ دل مردہ ہے۔۔۔ اور قلب کی صحت، طہارت اور صفائی ہے۔۔۔ اور اس طہارت کا حصول ایمان اور توحید کی بدولت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور اس کے مقابلے میں بیماری گندے تعلقات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔۔۔۔ اور دل کی بیداری، ذکر الٰہی میں ہے۔۔۔۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے اس کا دل بیدار ہوتا ہے۔


حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔


مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَایَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتت 

اللہ تعالیٰ کے ذکر کرنے والے کی مثال اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہے تو سمجھ لو کہ اس کے دل پر غفلت کی نیند 

میرے مدنی آقا ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔ تمہارے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔۔۔۔ سنو ! اور وہ دل ہے۔

حاضرین گرامی

للہ تعالیٰ کے ذکر کرنے سے دل کو جو برکت، لذت، حلاوت ، طہارت اور سرور و طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ کسی ایسے شخص سے مخفی نہیں جو کچھ دن اس پاک نام کی رٹ لگا چکا ہو اور ایک زمانہ تک اس کو حرز جان بنا چکا ہو۔
 ایسا آخر کیوں نہ ہوں خود خالق قلب کا فرمان ہے۔ اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝ 
یعنی دلوں کو راحت صرف اور صرف میری یاد سے حاصل ہوگا۔
 اس دعا کے ساتھ میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ تمام حضرات سے گذارش ہے کہ ’’آمین‘‘ ضرور کہئے گا۔

اللہ وہ دل دے کہ تیرے عشق کا گھر ہو
دائمی رحمت کی تیری اس پہ نظر ہو
دل دے کہ تیرے عشق میں یہ حال ہو اس کا
محشر کا اگر شور ہو، تو نہ خبر ہو






Sukoon e Dil in Urdu
Sakoon e Dill Shayari
Sokoon e Qalb or Rahat e Dil
Peace of Hart.

Read More >>

Friday, 26 January 2018



سورۂ فاتحہ کے فضائل


الحمد للہ رب العٰلمین، والعاقبۃ للمتقین واصلوٰۃ والسلام علٰی سیّد الانبیاء والمرسلین، وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین

امّا بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱ۙ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۙ  مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۝۳ۭ  اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۝۴ۭ   اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝۵ۙ  صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ۝۷ۧ 
 وقال النبی صلّی اللہ علیہ سلّم : ’’کلُّ کَلَامٍ لَایُبْدَأفِیہِ بحمدِ اللہِ فُھُوَ َجْذَمُ‘‘ اَوْ کَمَا قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم

حمد تیری اے خدائے لم یزل
ہے یہ اپنی زندگی کا ماحصل 
تو ہی خالق تو ہی خلّاق ہے
تو ہی ربِّ انفس و آفاق  ہے
تیری نعمت کی نہیں کچھ انتہا 
شکر تیرا کیا کسی سے ہو ادا

محترم اساتذہ کرام اور میرے ہم مکتب ساتھیو!۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج مجھے اس بزمِ سعید میں جس موضوع پر لب کشائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ’’سورۃ فاتحہ کے فضائل‘‘ کے عنوان سے معنون ہے۔

سامعین محترم:۔

قرآنِ عظیم کی افتتاح جس سورت سے ہوتی ہے اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جو سورت قرآنِ کریم میں سب سے پہلے مکمل نازل ہوئی اس کو سورۃ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کو مکہ اور مدینہ دونوں مقدس مقامات میں نازل ہونے کا شرف حاصل ہوا، اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کو پورے قرآن کا خلاصہ قرار دیا جائے اس کو سورۃ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کو حق تعالیٰ شانہ اپنے عرش کا خزانہ قرار دے اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کو ’’ام الکتابِ، السَّبْعُ المَثَانِیْ، الشَّافِیَہْ، اَلْکَافِیہِ، الاسَاس‘‘ اور ‘‘الحمد‘‘ کے ناموں سے پکارا اور پہچانا جائے اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کی تلاوت ہر نماز میں ہوتی ہو اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کے بارے میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ’’لاصلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب‘‘ فرمائے اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کے ابتدائی الفاظ کے متعلق خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ’’کلّ کَلَامٍ لَایُبْدَأُ فِیْہ بِحَمْدِ اللہِ فھوَ اَجذذَم‘‘ فرمائے اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کے بارے میں محمد مصطفیٰ ﷺ کا فرمان ہو کہ ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اس سورت جیسی کوئی سورت ، تورات ، انجیل، زبور، حتی کہ قرآن مجید میں بھی نہیں ہے‘‘ اس کو سورفاتحہ کہتے ہیں۔

حدیثِ قدسی ہے میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خالق و مالک کا قول نقل فرماتے ہیںجب بندہ نماز میں کہتا ہے ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱ۙ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’میرے بندے نے میرا حمد کی ۔۔۔۔ اور جب بندہ کہتا ہے’’لرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۙ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ‘‘میرے بندے نے میری تعریف و ثناء بیان کی۔۔۔۔ اور جب وہ کہتا ہے ’’مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۝۳ۭ ‘‘ تو حق تعالیٰ فرماتے ہیں ’’میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی‘‘ اور جب بندہ کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۝۴ۭ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ‘‘میرے بندے میں تیری عبادت قبول کروں گا اور تیرا مددگار بنوں گا۔۔۔۔۔ اور جب بندہ کہتا ہے ‘‘اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝۵ۙ‘‘ تو اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ‘‘میرے پیارے بندے میں تیری یہ دعا قبول کر کے تیری چاہت پوری کر دوں گا۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ۔
کسی اللہ والے نے سورہ فاتحہ کا کیا خوب نقشہ کھینچا ۔۔۔۔۔!۔

حمد و ثنا ہو تیری کون و مکاں والے
اے رب! ہر دو عالم دونوں جہاں والے
بن مانگے دینے والے عرش و قرآن والے
گرتے ہیں تیرے در پہ سب آن، بان والے
یومِ جزا کا مالک ، خالق ہمارا تو ہے
سجدے ہیں تجھ کو کرتے تیری ہی جستجو ہے
امداد تجھ سے چاہیں سب کا سہارا تو ہے
تیری ہی بارگاہ میں یہ بھی اِک آرزو ہے
وہ رستہ دکھا تو پروردگارِ عالم
جس پہ چل گئے ہیں پرہیزگارِ عالم
نعمت ملی تھی جن کو، تجھ سے نگارِ عالم
اور نام جن کا اب تک ہے یادگار عالم
معتوب ہیں جو تیری ہی خالق یگانہ
گمراہ ہوئے جو تجھ سے اے صاحبِ خانہ
ہم عاجزوں کو  یا رب ان کی راہ نہ چلانا
کر اتنا کرم اب تو اے قادرِ توانا


وما علینا الا البلاغ المبین



Surah Fatiha ke Fazail in Urdu

Surah Fatiha ke Fawaid

Masla e Ilm e Gaib ki Wazahat

Benefits of Surah e Fatiha in Urdu Hindi

Read More >>

Thursday, 25 January 2018





والدین کا مقام

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد فاعوذ باللہ مِن الشیطان الرجیم
وَبِالوَالِدَینِ اِحسَانا۔ صدق اللّٰہ العظیم

 فرمان خدا ہے قرآن میں والدین سے حسن سلوک کا 
رب کو محبوب ہے وہ بندہ جو مطیع ہو والدین کا 
والدین کی رضا ہے درحقیقت رضا پروردگار کا 
جن پر نظر محبت سے ملتا ہے اجر حج مبرور کا 

گرامی قدر اساتذہ کرام اور میرے ہم سفر ساتھیو
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ!۔

آج میں جس موضوع پر لب کشائی کی جسارت کرنا چاہتا ہوں / چاہتی ہوں وہ ہے والدین کا مقام

سامعین محترم!۔

دین اسلام میں اولاد پر والدین کے لیے جو کچھ لازم قرار دیا گیا ہے اس کی تعمیل سعادت اور اس سے روگردانی بدبختی کا باعث ہے اس لحاظ سے والدین کے وجودِ سعود کو ایک بے بدل سرمایہ جان کر ان کی جتنی قدرکی جائے اتنی ہی کم ہے۔

چنانچہ ارشد باری تعالیٰ ہے: اگر ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک تیری زندگی میں بوڑھے ہو جائیں تو ان سے کبھی ہو نہہ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اُن سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت ، محبت اور انکساری کے ساتھ جھکے رہنا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر کلمہ اُف سے نیچے بھی کوئی درجہ والدین کے تکلیف دینے کا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی حرام قرار دے دیتے۔ 

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ایک شخص اپنی والدہ کو کمر پر اٹھائے طواف کروارہا تھاتو اس نے سے پوچھا کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کر دیا ہے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ابھی تو نے ایک سانس کا حق ادا نہیں کیا اللہ اکبر کبیرا۔

سامعین گرامی مجھے کہنے دیجیے ماں کی آغوش انسان کی پہلی درس گاہ ہے ماں آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے ماں کا سایہ ٹھنڈی چھائوں ہے ماں دکھوں کا مداوا ہے۔ ماں زندگی کی تاریک راہوں جس میں روشنی کا مینارہ ہے ماں کی دعا کامیابی کا راز ہے ماں کے قدموں تلے جنت ہے ماں دنیا کی عزیز ترین ہستی ہے ماں کے بغیر کائنات نا مکمل ہے۔

گرامی قدر!  توجہ فرمائے ماں ہمیں اڈھائی سال تک اُٹھاتی پھرتی رہیں اپنی چھاتیوں سے دودھ پلاتی رہیں ہمارے جھولے جھلاتی رہیں ہماری لاڈ اور ناز اُٹھاتی رہیں سردیوں کی رات میں اُٹھ اٹھ کر ہمیں کپڑے ڈھانپتی رہیں ہمارے پیشاب کے گیلے بچھونے پر خود سوتی رہی اور خشک بچھونا ہمارے لیے بچھاتی رہیں گرمیوں میں پوری رات آنچل سے ہوا جھلتی رہیں ہمیں ذرا عالم شعور میں پہنچی تو ہمارے لیے اچھا اچھا کھانا پکاتی رہیں ہمارے لیے حتی الوسع عمدہ عمدہ جوڑے بناتی رہیں لیکن صد افسوس میرے عزیز طالب علم ساتھیو آج ہم والدین کی ان قربانیوں کا مشقتوں کا اور ان ناقابل فراموش احسانات کا صلہ کیا دے رہے ہیں یہی نا کہ ہم ان کا کہنا نہیں مانتی دوسروں کے سامنے ان کو جھڑک دیتی ہے تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ اور سکول بھیجتے ہیں تو ہم بھاگی جاتی ہے اور ان کے ارمانوں کا خون کرتی ہے اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتی ہیں بعض تو الامان الحفیظ ان کو گالیاں دیتی ہیں اپنا دین و دنیا بربادکرتے ہیں /  کرتی ہیں اپنا مستقبل خراب کرتے ہیں / کرتی ہیں اپنے اوپر جنت حرام کرتی ہیں۔ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کرتے ہیں / کرتی ہیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ والدین کی رضا مندی میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے والدین جنت یا جہنم کا ذریعہ والدین کو راضی کرنے والا جنت اور ناراض کرنے والا جہنم میں جائے گا۔

والدین کے ساتھ حسن سلوک رزق اور عمر بڑھنے کا ذریعہ ہے والدین کی خدمت جہاد ہے والدین کو نظر رحمت سے دیکھنا مقبول حج کے برابر ہے والدین کی خدمت نفلی حج اور عمرے کے برابر ثواب ہے۔

آیئے آج سے ہم پختہ ارادہ کریں کہ آئندہ کبھی بھی والدین کے دل نہیں دکھائیں گی شوق اور لگن سے تعلیم حاصل کریں گیں اور ان کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیں گیں۔ 
کسی نے کیا  خوب کہا ہے:
 ذرا سی چوٹ لگے تو وہ آنسو بہا دیتی ہے  ؎
اپنی سکون بھری گود میں ہم کو سلا دیتی ہے
کرتے ہیں خطاء ہم تو چٹکی میں بھلا دیتی ہے
ہوتے ہیں خفا ہم جب تو دنیا کو بھلا دیتی ہے


مت گستاخی کرنا لوگو اس ماں سے کیوں کہ


جب وہ چھوڑ کے جاتی ہے تو گھر کو ویران بنا دیتی ہے

وما علینا اِلا البلاغ المبین

 Islam main Waldain ka Maqam


ترتیب : محمد اکرام پل احمد آباد
فاضل دارالحدیث راجووال
Read More >>

Wednesday, 24 January 2018



ختم نبوتﷺ

نحمد ونصلی علی رسولہ الکریم أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم

‘‘ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖن وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا۝۴۰ۧ’’
[الاحزاب: 40]                                                                                     
 وقال النبیﷺ ’’اَنَا خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔‘‘۔
(صدق اللہ العظیم وصدق رسول النبّبی الکریم)                                      
وہ دانائے سبل، ختمِ رسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا، فروغِ وادی سیننا
نگاہِ عشق مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقان، وہی یٰسین وہی طٰہ
محترم اساتذہ کرام اور میرے ہم مکتب ساتھیو!۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج میں آپ حضرات کے سامنے  ’’ختم نبوت‘‘ کے موضوع پر لب کشائی کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔
سامعین گرامی۔۔۔۔!۔
 مسئلہ ختم نبوت کا تعلق عقیدے سے ہے اور مذہب اہل سنت والجماعت کا مدار اسی پر ہے قرآن کریم کی ستّر ۷۰ آیات مبارکہ حضور علیہ السلام کے خاتم النبیین ہونے پر عادل و شاہد ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو جس طرح نبوت اور رسالت عطا فرمائی اس طرح ختم نبوت اور ختم رسالت کی خلعت سے بھی سرفراز فرمایا ہے۔۔۔۔ آپﷺ نبی بھی ہیں اور خاتم النبیین  بھی ہیں۔۔۔۔۔ آپ رسول بھی ہیں اور خاتم النبیین بھی ہیں۔
صرف یہی بات نہیں کہ آپﷺ پر نبوت ختم ہوگئی ہے اور اب کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ اور رسالت ختم ہو گئی اب کوئی  رسول پیدا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ بلکہ اللہ تعاولیٰ نے نبوت کا اختتام اور رسالت کی تکمیل بھی آپﷺ کے ذریعے فرمائی۔ قرآن کریم میں ہے۔
 ‘‘  وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸’’
[الصف: 8]                                                    
یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ حضرت محمدﷺ کو بھیج کر اپنے نور کو مکمل فرمائیں گے، چاہے کافروں کو کیسا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ ارشد فرمایا!۔
‘‘ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۳۲’’
[التوبہ: 32]                                                              
یعنی: اللہ تعالیٰ اپنے نور کو مکمل کریں گے چاہے کفار کتنا ہی ناگوار محسوس کریں۔
چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر قرآن پاک کی ایک اور آیت نازل ہوئی:۔
‘‘ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا’’
[المائدہ: 3]                                                                                   
یعنی آج ہم نے آپ کے لئے آپ کے دین کو مکمل کر دیا۔ اور اپنی نعمت کا اتمام کر دیا۔۔۔ اور آپ کے لئے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا۔۔۔۔۔ گویا یہ بشارت دی گئی کہ ہم نے اپنے نور کو مکمل کر دیا ہے یا یوں سمجھئے کہ نبوت کے ساتھ ساتھ ختم نبوت سے بھی آپﷺ کو سرفراز کیا گیا۔ ختم نبوت کتے ساتھ ساتھ اللہ نے اس نبوت کی تکمیل بھی کر دی۔ تکمیل کرنے اور اس کو مکمل کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس نبوت کو نور اور فیض رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔
پیغمبر کے ماننے والو! اب قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کے لئے اسی نبوت اور رسالتِ کاملہ کو جس کے اندر کسی طرح کوئی کمی نہیں ہے اللہ تعالیٰ ذریعہ بنائیں گے قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہبری اور رہنمائی کے لئے اب کوئی رہنما اور کوئی رہبر، معتبر اور قابل قبول نہیں۔۔۔۔ صرف رسول اللہﷺ کی رہنمائی اور رہبری ہی قابل قبول ہے۔
سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا:۔
‘‘اَنَا خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ’’
میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں اور ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃ قَدِانْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ‘‘۔
یعنی رسالت اور نبوت ختم ہو گئی ہے تو میرے بعد کوئی نبی اور کوئی رسول نہیں ہے۔
آج اگر کوئی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ مسلیمہ کذّاب کہلائے گا یا اس کا حال اسود عنسی جیسا ہوگا  یا غلام احمد قادیانی کی طرح لیٹرین میں مرے گا۔
اللہ رب العزّت ہم سب کو تحفظ ختم نبوت کے لئے قبول فرمائے۔ آمین
وما علینا الاّ البلاغ المبین


Read More >>

Tuesday, 23 January 2018



سیرت محسنِ اعظم ﷺ

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم


لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ 
[الاحذاب: 21]                                               
وقال النبیﷺ ’’اِنَّمَا بُعِتُ مُعّلِّمًا‘‘ او کما قال علیہ السلام
رخ مصطفیٰ ﷺ کو دیکھا تو دیوں نے جلنا سیکھا
یہ کرم ہے مصطفیٰ ﷺ کا شب غم نے ڈھلنا سیکھا
یہ زمین رکی ہوئی تھی یہ فلک تھما ہوا تھا
چلے جب میرے محمدﷺ تو جہاں نے چلنا سیکھا

محترم اساتذہ (صدر جلسہ) و معززین سامعین!۔

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 آج اس محفل میں میرا موضوع سخن ’’سیرت النبیﷺ‘‘ کے مبارک عنوان سے معنون ہے۔
سامعین گرامی۔۔۔۔۔۔۔۔!۔
    سامعین ویسے تو سیرت کا معنی لغت میں کسی کارکردگی یا کارناموں کو احاطہ کرنے کے آتے ہیں۔ لیکن آج تک کوئی مصنف۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی محدث۔۔۔۔۔ کوئی مؤرخ ۔۔۔۔۔۔ کوئی مفکر۔۔۔۔۔۔ کوئی مدبر اور کوئی مقرر ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے آنحضرتﷺ کی پوری سیرت کا احاطہ کیا ہو۔۔۔۔۔۔! چنانچہ میں وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیرت کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا۔
حاضرین گرامی۔۔۔۔۔۔!۔
میرے آقا کی صورت حسین ہے ۔۔۔۔ سیرت بہترین ہے۔۔۔۔۔۔ صورت میں جمال ہے۔۔۔۔۔۔ سیرت میں کمال ہے۔۔۔۔۔۔۔ میرے محبوب پیغمبرﷺ کی سیرت کا باب اتنا وسیع ہے کہ اماں صدیقہ۔۔۔۔۔۔ پیغمبر کی رفیقہ۔۔۔۔۔۔۔ْ ازواج میں لئیقہ۔۔۔۔۔ امت پہ شفیقہ۔۔۔۔۔ اخلاق میں خلیقہ۔۔۔۔۔۔۔ کائنات میں باسلیقہ ۔۔۔۔ شان میں عجیبہ۔۔۔۔۔ نہایت خوش نصیبہ۔۔۔۔۔۔ خدا کی حبیبہ۔۔۔۔۔ باغ نبوت کی عندلیبہ وہ فرماتی ہیں ‘‘کَانَ خُلُقُہٗ اَلْقُرْآنُ‘‘ سارا قرآن میرے مصطفیٰ کی سیرت ہے۔

سامعین محترم۔۔۔۔!۔

   میرا پیغمبرﷺ امی ایسا ہے کہ ساری کائنات میں ان کا استاد نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔۔ اور استاد ایسا ہے کہ ساری کائنات ان کی شاگرد ہیں۔۔۔۔۔ یتیم ایسا ہے کہ نہ باپ نہ دادا، پورے مکہ میں لاوارث نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔اور وارث ایسا ہے کہ ساری امتِ لاوارث کا وارث ہی محمدﷺ ہیں۔۔۔۔۔ حسین ایسا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے دیکھنے والوں نے انگلیاں کاٹیں۔۔۔۔ میرے محمدﷺ کو دیکھنے والوں نے اپنے بچے شہید کروائے۔۔۔۔۔ گردنیں کٹوائیں۔۔۔۔۔ جانیں قربان کر دیں۔ حسین ایسا ہے کہ خدا نے اپنا محبوب بنالیا اور حیا اتنی ہے کہ عرب کی کنواری لڑکیاں بھی حیا کا مقابلہ نہ کرسکیں۔۔۔۔ بہادر اتنا ہے کہ اکیلا غزوۂ حنین میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں ’’اَنَا النَّبِیّٗ لَاکَذِبْ اَنَاابْنُ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ‘‘۔۔۔۔ نرم دل اور مہربان اتنا ہے کہ ساری زندگی کسی کو انگلی کا اشارہ بھی نہ کیا۔۔۔۔ میرے محبوبﷺ کی عجیب سیرت ہے بیک وقت حضورﷺ میں دو چیزیں ہیں۔
میرے مدنی آقا بہادر بھی ہیں۔۔۔۔شریف بھی ہیں۔۔۔۔ حسین بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ باحیا بھی ہیں۔۔۔۔۔ امی بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ استاد بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ یتیم بھی ہیں۔۔۔۔۔ اور وارث بھی ہیں۔ 

سامعین مکرم۔۔۔۔!۔

مجھے کہنے دیجئے! میرے نبی مسکرا کر دیکھے تو جنت کا منظر بن جاتا ہے، غصے میں آجائے تو قیامت کا منظر بن جاتا ہے، قدم اٹھائے تو سنت بن جاتی ہے۔۔۔۔۔ گفتگو کرے تو حدیث بن جاتی ہے۔۔۔۔ عمل کرے تو شریعت بن جاتی ہے۔۔ عمر رضی اللہ عنہ آئے تو فاروق بن جاتا ہے۔۔۔۔ عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو ذوالنورین بن جاتا ہے، علی رضی اللہ عنہ آئے تو حیدر کرار بن جاتا ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ آئے تو کاتب وحی بن جاتا ہے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ آئے تو امین الامۃ بن جاتا ہے، ڈاکو اور لٹیرے آئے تو محافظ و نگہبان بن جاتا ہے، ظالم و ستم گر آئے تو عادل اور ہمدرد انسان بن جاتا ہے، فاسق و فاجر آئے تو زاہد و پارہسا بن جاتا ہے۔۔۔۔۔ عرب کا چرواہا آئے تو زمانے کا مقتداء بن جاتا ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ کیونکر ہوا تھا؟ یہ انقلاب کیسے آیا تھا؟
میں عرض کروں یہ انقلاب حضورﷺ کی محنت سے بپا ہوا تھا۔ یہ انقلاب حضورﷺ کی سیرت پر چلنے اور عمل کرنے سے بپا ہوا تھا۔ یہ تبدیلی سیرت النبیﷺ کی انقلابی تعلیمات کی برکت سے آئی تھی۔ یہ تبدیلی سیرت النبیﷺکو اپنا امام اور مقتدا بنانے سے پیدا ہوئی تھی۔
گرامی قدر!
آج بھی وہ ہدایت ربّانی اور دعوت آسمانی موجود ہے اور سیرت کے جلسے بھی بہت ہو رہے ہیں۔ عیدمیلاد النبیﷺ کے لئے بڑے بڑے جلوس بھی نکل رہے ہیں۔ بارگاہ رسالت میںﷺ میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جارہی ہے۔

لیکن! وہ فضا اور ماحول نہیں بن رہے ہیں جو صحابہ کے دور میں تھا۔۔۔۔ چنانچہ اگر آپ وہ ماحول اور فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے سرور کائناتﷺ کی سیرت کی طرف رجوع ضروری ہے۔ اسی میں ہمارا علاج ہے۔
شاعر کہتا ہے۔۔۔۔!
اصلاح عالم کا اب سامان ہونا چاہیئے
سب کا دستو العمل سیرت النبیﷺ ہونا چاہیئے
یہی ہے آرزو سیرت مصطفیٰﷺ عام ہو جائے
سب سے اونچا پرچم، پرچم اسلام ہو جائے

وما علینا الّا البلاغ المبین



Seerat e Mohsin e Azam Sallallahu Alaihi Wasallam ky Inqlabi Iqdamat

Read More >>


Copyright © 2016 - Ilm o Adab - All Rights Reserved
(Articles Cannot Be Reproduced Without Author Permission.)
| Powered By: Islamic Stories