اسلام میں عورت کا مقام
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد! فأعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم
﷽
مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ
حَيٰوۃً طَيِّبَۃً
(صدق اللہ العظیم)
محترم سامعین!۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
آج میری تقریر کا موضوع ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ کے عنوان سے معنون ہے۔
سامعین گرامی۔۔۔۔۔۔!۔
لفظ ’’عورت‘‘ کا معنی لغت میں ’’چھپانے کی چیز‘‘ کے ہیں۔۔۔۔۔ اس لغوی معنی کو سنتے ہی ایک ذی شعور انسان جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ادنیٰ عقلل و فراست سے نوازا بخوی جان لے گا کہ جہاں عورت ہو گی وہاں پردہ ضرور ہو گا۔۔۔۔ گویا عورت اور پردہ لازم اور ملزوم ہے۔۔۔۔۔ اور یہی پردہ شریعت کو مطلوب ہے۔۔۔۔ جو معاشرے کی طہارت اور ماحول کی نظافت کا ضامن ہے ۔۔۔۔ ہاں! پردہ جس کے اندر بقائے انسانیت اور احیائے نسلیت کا راز مضمر ہے۔۔۔۔۔ جس کے بغیر اس کائنات میں امن و امان اور سکون و آشتی کاقیام ناممکن ہے۔
سامعین مکرم۔۔۔۔۔!۔
عورت ذات کو اسلام نے جو مرتبہ اور مقام عطا فرمایا ہے اس سے دیگر مذاہب تہی دامن ہے۔۔۔۔۔ چنانچہ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اسلام سے قبل لفظ ’’عورت‘‘ ناقابل سماعت تھی۔ عورت کی قدر راہ پڑی چیز سے زیادہ نہ تھی۔۔ بچیوں کو زندہ درگور کیا جانا معیوب نہ تھا۔۔۔ عورت نجاست کا ڈھیر اور شیطان کی نمائندہ تھی۔۔۔ ایّام مخصوص میں ان کے لیے الگ جگہ مقرر تھی۔۔۔۔ بچی کی ولادت کی خبر انتہائی ناگوار تھی۔۔۔۔ عورت ذات محض ایک کھلونا تھا۔۔۔۔ بے حیائی اور بے پردگی سرِ عام تھی۔۔۔۔۔ ہر گلی اور کوچے میں عورت کی عزت کا نیلام تھا۔
لیکن میرے محبوبﷺ کے آمد مسعود سے عورت کو دنیا میں جینے کا صحیح حق ملا۔۔۔ معاشرے میں باعزت مقام ملا۔۔۔ کہیں بیٹی، کہیں بہن، کہیں بیوی اور کہیں ماں جیسی عظیم الشان صفات ملی۔۔۔۔ عورتوں کو گھر کی مالکن ہونے کا شرف ملا۔۔۔ تین بچیوں کی تربیت کرنے پر جنت کی نوید ملی۔۔۔۔ ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت ملی۔
سامعین محترم۔۔۔۔۔۔۔!۔
مجھے فخر ہے کہ دینِ اسلام عورت ذات کے متعلق کسی بھی قسم کی تحقیر، توہین اور تذلیل آمیز نظریات نہیں رکھتا۔۔۔۔ بلکہ مجھے کہنےدیجیئے! اس عورت ذات نے مجھے زندگی عطا کی ہے، لہٰذا میں اس سے زندہ رہنے کا حق نہیں چھین سکتا۔۔۔ اس نے میری نجاستیں دھو کر مجھے انگلی سے پکڑ کر زمین پر چلنے کا طریقہ سکھایا، لہٰذا میں اس کے پاؤں تلے سے زمین نہیں چھین سکتا۔۔۔۔ اس کا ودیعت کردہ خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے، لہٰذا شیطان کا دروازہ یا گناہوں کا محل نہیں کہہ سکتا۔۔۔ اس نے اپنی زندگی کی ہر سانس کے ساتھ مجھے دعائوں سے نوازا ہے، لہٰذا میں اسے حقارت آمیز گالیاں نہیں دے سکتا۔۔۔۔ اس نے مجھے کامل و مکمل بنایا ہے، لہٰذا میں اسے نامکمل نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔ اس نے مجھے گھر کی پرسکون اور پر امن ماحول عطا کی ہے، لہٰذا میں اسے فتنہ و فساد کی جڑ قرار نہیں دے سکتا۔۔۔۔ یہ میرا لباس ہے، لہٰذا میں اسے نگِ انسانیت کا طعنہ نہیں دے سکتا۔
معزز سامعین۔۔۔۔!۔
آج پھر اس صنفِ نازک پر مختلف انواع کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔۔۔۔ آزادیٔ نسواں کے پُر فریب نعروں سے ان کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔۔۔ کہیں فیشن اور کہیں مقابلۂ حسن کے نام پر ان کو سرِ عام ننگا کیا جارہا ہے۔۔۔ ہر کس و ناکس عورت ذات کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔۔۔۔ اور آزادی کے نام پر عورت کو بہن ، بیٹی، بیوی اور ماں بننے کے اعزاز سے روکا جارہا ہے۔۔۔ عورتوں کو کلبوں اور محفلوں میں نچایا جارہا ہے۔۔۔ ان کی عزت و ناموس کو ہر گلی کوچے میں لوٹا جا رہا ہے۔۔۔۔ باریک کپڑوں میں ملبوس ہونا قابلِ عزت مانا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ بھری سڑک میں مختصر لباس میں چلنے پھرنے کو ترقی کہا جا رہا ہے۔۔۔۔ ’’الامان، الحفیظ‘‘ اب تو ان سے ہاکی اور کرکٹ بھی کھلوایا جا رہا ہے۔۔۔ الغرض بنت ہوا کو ذلیل و خوار کیا جارہا ہے ۔۔۔۔ جس کو آزادیٔ نسواں کا نام دیا جا رہا ہے۔
شاعر کہتا ہے۔۔۔۔!۔
آزادی یہ نہیں کہ عورت بے حیا ہو جائے
فیشن یہ نہیں کہ عورت بے قبا ہو جائے
اسلام ہی ہے سب کے لئے مثل چراح بہنو!۔
روشنی یہ نہیں کہ عورت بے ضیاء ہو جائے
حاضرین مجلس۔۔۔!۔
یہی ناسور اور ناپاک اور عیاش لوگ قرآنی احکام میں تاویل کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ علماء ربانیین کو دقیانوسیت کے القاب دے رہے ہیں۔۔۔۔۔ عورتوں کو ان کے اصلی مقام اور مرتبہ بتانے والوں کو تنگ نظر کہا جا رہا ہے۔۔۔۔ عورتوں کو ان کا حق دلوانا ظلم بتایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے مسلم حکمران بھی ان ناپاک نعروں کے مستی میں جھوم رہے ہیں۔۔۔۔ مسلمانوں کے نام نہاد دانشور غیر مسلموں اور فرنگیوں کی تقلید میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔
افسوس میرے مسلمان بھائیو! اب تو ہوش کے ناخن لیجئے۔۔۔۔ اب تو اپے ضمیر کو جھنجھوڑیئے۔۔۔۔۔ خدارا اب تو اپنی قومی حمیت اور ایمانی غیرت سے کام لیجئے۔۔۔۔۔ ورنہ سنیئے! تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔۔ تمہیں عزیز الحق مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار جگاتے ہیں۔۔۔۔!۔
دستِ قدرت نے بتا کب حسن کو عریاں کیا
ابر میں پانی، شرر کو سنگ میں پنہاں کیا
مشک کو نافے میں رکھا اور بوکوپھول میں
پھول کو کانٹے میں رکھ کر حفظ کا سامان کیا
درصدف میں، سیم و زر کو کان میں مخفی کیا
جب کبھی باہر نکالا در بدر حیران کیا
حسن کی ہر اک ادا جب اس طرح مستور تھی
حسنِ زن کو تو نے ظالم کس لئے عریاں کیا
وما علینا الّا البلاغ المبین
0 comments :
Post a Comment