Latest: Add Latest Article Here | Recommended: Add Recommended Article Here

Ilm o Adab website you have Seerat un Nabi PBUH, Quotes of the Day, Azkar e Masnoona, Stories, Model Speech like waldain ki azmat and much more.


Showing posts with label Seerat Sahaba RA. Show all posts
Showing posts with label Seerat Sahaba RA. Show all posts

Saturday, 10 February 2018


حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور کا ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ


حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدالت

دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں۔

’’یا عمررضی اللہ عنہ یہ ہے وہ شخص!‘‘

سیدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہیں۔ 
’’کیا کیا ہے اس شخص نے؟‘‘
’’یا امیر المؤمنین، اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔‘‘

کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟
سیدنا عمررضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں۔
کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟

وہ شخص کہتا ہے :
ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے ان کا باپ۔
کس طرح قتل کیا ہے؟

سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
یا عمررضی اللہ عنہ، ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔

پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اس کی سزا۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں۔ نہ ہی اس شخص سے اس کے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے؟ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں؟ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ہے؟؟؟ کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمررضی اللہ عنہ پر کوئی بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے۔ 
اے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں۔ مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تا کہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں: 
کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک بھی جانتا ہو۔ اس کے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔

  کون ضمانت دے اس کی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے، جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔
اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کی لئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہم پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود حضرت عمر ؓ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کے لئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!

خود سیدنا عمررضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، 

معاف کر دو اس شخص کو۔
نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے، اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں۔

اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس شخص کی ضمانت دے؟
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں۔

میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!

سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں
ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔
چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذررضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔

عمررضی اللہ عنہ :’’جانتے ہو اسے؟‘‘
ابوذررضی اللہ عنہ :’’نہیں جانتا اسے‘‘

عمررضی اللہ عنہ : ’’تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟‘‘

ابوذررضی اللہ عنہ :’’میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا، ان شاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔‘‘

عمررضی اللہ عنہ : ’’ابوذررضی اللہ عنہ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔‘‘

امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کے لئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔

حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر حضرت عمررضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

’’کدھر ہے وہ آدمی؟‘‘

سیدنا عمررضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں۔
’’مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین‘‘، 

ابوذررضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذررضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں آج معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟

یہ سچ ہے کہ ابوذررضی اللہ عنہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمررضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمررضی اللہ عنہ دیر نہ کریں، کاٹ کر ابوذررضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے۔ بےساختہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔

اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا

امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے، بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ابوذررضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا۔

ابوذررضی اللہ عنہ، تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟
ابوذررضی اللہ عنہ نے کہا،
اے عمررضی اللہ عنہ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دونوں نوجوانوں سے پوچھا۔
کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، 

اے امیر المؤمنین، ہم اس شخص کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی داڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔

اے ابوذررضی اللہ عنہ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔
اور
اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔

محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں،
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمررضی اللہ عنہ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔

Read More >>

Friday, 9 February 2018



اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو

ایک صحابیؓ جلیل کا بہت ہی خوبصورت واقعہ اور دنیا کے لیے ایک مثالی نمونہ


صحابئ رسول حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی تھے۔ نہ مالدار تھے نہ کسی معروف خاندان سے تعلق تھا۔ صاحب منصب بھی نہ تھے۔ رشتہ داروں کی تعداد بھی زیادہ نہ تھی۔ رنگ بھی سانولا تھا۔ لیکن اللہ کے رسولﷺکی محبت سے سرشار تھے۔ بھوک کی حالت میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوتے، علم سیکھتے اورصحبت سے فیض یاب ہوتے۔

ایک دن اللہ کے رسول نے شفقت کی نظر سے دیکھا اور ارشاد فرمایا:

’یَا جُلَیْبِیبُ! أَلَا تَتَزَوَّجُ؟‘
’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘

جُلیبیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ جیسے آدمی سے بھلا کون شادی کرے گا؟

اللہ کے رسولﷺنے پھر فرمایا: 
’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘ اوروہ جواباً عرض گزار ہوئے کہ اللہ کے رسول! بھلا مجھ سے شادی کون کرے گا؟ نہ مال نہ جاہ و جلال!!
اللہ کے رسولﷺنے تیسری مرتبہ بھی ارشاد فرمایا: ’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟ جواب میں انہوں نے پھر وہی کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے شادی کون کرے گا؟ کوئی منصب نہیں میری شکل بھی اچھی نہیں، نہ میرا خاندان بڑا ہے اورنہ مال و دولت رکھتا ہوں۔

اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا:
’اِذْھَبْ إِلَی ذَاکَ الْبَیْتِ مِنَ الأَْنْصَارِ وَقُل لَّھُم: رَسُولُ اللّٰہِﷺ یُبْلِّغُکُمُ السَّلَامَ وَیَقُولُ: زوِّجُونِي ابْنَتَکُمْ۔‘
’’فلاں انصاری کے گھرجاو اور ان سے کہو کہ اللہ کے رسول تمھیں سلام کہہ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اپنی بیٹی سے میری شادی کردو۔‘‘

جُلیبیب خوشی خوشی اس انصاری کے گھر گئے اور دروازے پر دستک دی گھر والوں نے پوچھا کون؟
کہا: جُلیبیب۔
گھرکا مالک باہر نکلا جُلییب کھڑے تھے
پوچھا: کیا چاہتے ہو، کدھر سے آئے ہو؟
کہا: اللہ کے رسول نے تمھیں سلام بھجوایا ہے۔

یہ سننے کی دیر تھی کہ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اللہ کے رسول نے ہمیں سلام کا پیغام بھجوایا ہے۔ ارے! یہ تو بہت ہی خوش بختی کا مقام ہے کہ ہمیں اللہ کے رسول نے سلام کہلا بھیجا ہے۔

جُلیبیب کہنے لگے: آگے بھی سنو! اللہ کے رسولﷺنے تمہیں حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔

صاحب خانہ نے کہا: ذرا انتظار کرو، میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کرلوں۔ اندرجاکر لڑکی کی ماں کو پیغام پہنچایا اور مشورہ پوچھا؟ 
وہ کہنے لگی: نا 'نا، نا 'نا… قسم اللہ کی! میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے نہیں کروں گی، نہ خاندان، نہ شہرت، نہ مال و دولت، ان کی نیک سیرت بیٹی بھی گھر میں ہونے والی گفتگو سن رہی تھی اور جان گئی تھی کہ حکم کس کا ہے؟ کس نے مشورہ دیا ہے؟ سوچنے لگی اگر اللہ کے رسول اس رشتہ داری پرراضی ہیں تو اس میں یقینا میرے لیے بھلائی اور فائدہ ہے۔
اس نے والدین کی طرف دیکھا اور مخاطب ہوئی:

’أَتَرُدُّونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِﷺ أَمْرَہٗ؟ ادْفَعُونِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ’ﷺ فَإِنَّہُ لَنْ یُضَیِّعَنِی‘۔

’’کیا آپ لوگ اللہ کے رسول کا حکم ٹالنے کی کوشش میں ہیں؟ مجھے اللہ کے رسول کے سپرد کردیں(وہ اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہیں میری شادی کردیں) کیونکہ وہ ہر گزمجھے ضائع نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

پھر لڑکی نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی:
اور دیکھو! کسی مومن مرد وعورت کو اللہ اوراس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے امور میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘(الأحزاب33: 36)

لڑکی کا والد اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی: اللہ کے رسول! آپ کا حکم سر آنکھوں پر آپ کا مشورہ، آپ کا حکم قبول، میں شادی کے لیے راضی ہوں۔ جب رسول اکرم کو اس لڑکی کے پاکیزہ جواب کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:

’اللَّھُمَّ صُبَّ الخَیْرَ عَلَیْھَا صُبًّا وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَھَا کَدًّا۔‘
’’اے اللہ! اس بچی پر خیر اور بھلائی کے دروازے کھول دے اوراس کی زندگی کو مشقت و پریشانی سے دور رکھ۔‘‘
(موارد الظمآن: 2269، و مسند أحمد: 425/4، ومجمع الزوائد: 370/9وغیرہ)

پھر جُلیبیب کے ساتھ اس کی شادی ہوگئی۔ مدینہ منورہ میں ایک اور گھرانہ آباد ہو گیا جس کی بنیاد تقویٰ اور پرہیز گاری پر تھی، جس کی چھت مسکنت اور محتاجی تھی، جس کی آرائش و زیبائش تکبیر و تہلیل اور تسبیح و تحمید تھی۔ اس مبارک جوڑے کی راحت نماز اور دل کا اطمینان تپتی دوپہروں کے نفلی روزوں میں تھا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے یہ شادی خانہ آبادی بڑی ہی برکت والی ثابت ہوئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے مالی حالات اس قدر اچھے ہوگئے کہ راوی کا بیان ہے:

’فَکَانَتْ مِنْ أَکْثَرِ الأَْنْصَارِ نَفَقَۃً وَّمَالًا‘
’’انصاری گھرانوں کی عورتوں میں سب سے خرچیلا گھرانہ اسی لڑکی کا تھا۔‘‘

ایک جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا:

’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘
’’دیکھو! تمھارا کوئی ساتھی بچھڑ تو نہیں گیا؟‘‘

مطلب یہ تھا کہ کون کون شہید ہو گیا ہے؟
صحابہ نے عرض کیا: ہاں، فلاں فلاں حضرات موجود نہیں ہیں ...

پھر ارشاد ہوا:
’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘
’’کیا تم کسی اور کو گم پاتے ہو؟‘‘

صحابہ نے عرض کیا: نہیں۔

آپ نے فرمایا:
’لٰکِنِّي أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا فَاطْلُبُوہُ‘
’’لیکن مجھے جُلیبیب نظر نہیں آرہا، اس کو تلاش کرو۔‘‘

چنانچہ ان کو میدان جنگ میں تلاش کیا گیا۔
وہ منظر بڑا عجیب تھا۔ میدان جنگ میں ان کے ارد گرد سات کافروں کی لاشیں تھیں گویا وہ ان ساتوں سے لڑتے رہے اور پھر ساتوں کو جہنم رسید کرکے شہید ہوئے اللہ کے رسول کو خبر دی گئی۔ رؤف و رحیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اپنے پیارے ساتھی کی لاش کے پاس کھڑے ہوئے۔ منظر کو دیکھا۔ پھر فرمایا : 

’قَتَلَ سَبْعَۃً ثُمَّ قَتَلُوہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ۔‘
’’اس نے سات کافروں کو قتل کیا، پھر دشمنوں نے اسے قتل کردیا۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔‘‘

’فَوَضَعَہُ عَلَی سَاعِدَیْہِ لَیْسَ لَہُ إِلَّا سَاعِدَا النَّبِيَّ ﷺ‘۔
’’پھر آپ نے اپنے پیارے ساتھی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور شان یہ تھی کہ اکیلے ہی اس کو اٹھایا ہوا تھا۔ صرف آپ کو دونوں بازوئوں کا سہارا  میسر تھا۔‘‘

جُلیبیب رضی اللہ عنہ کے لیے قبر کھودی گئی، پھر نبیﷺنے اپنے دست مبارک سے انھیں قبر میں رکھا۔

                                                                     [صحیح مسلم: 2472]

Read More >>


Copyright © 2016 - Ilm o Adab - All Rights Reserved
(Articles Cannot Be Reproduced Without Author Permission.)
| Powered By: Islamic Stories