Latest: Add Latest Article Here | Recommended: Add Recommended Article Here

Ilm o Adab website you have Seerat un Nabi PBUH, Quotes of the Day, Azkar e Masnoona, Stories, Model Speech like waldain ki azmat and much more.


Friday, 9 February 2018



اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو

ایک صحابیؓ جلیل کا بہت ہی خوبصورت واقعہ اور دنیا کے لیے ایک مثالی نمونہ


صحابئ رسول حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی تھے۔ نہ مالدار تھے نہ کسی معروف خاندان سے تعلق تھا۔ صاحب منصب بھی نہ تھے۔ رشتہ داروں کی تعداد بھی زیادہ نہ تھی۔ رنگ بھی سانولا تھا۔ لیکن اللہ کے رسولﷺکی محبت سے سرشار تھے۔ بھوک کی حالت میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوتے، علم سیکھتے اورصحبت سے فیض یاب ہوتے۔

ایک دن اللہ کے رسول نے شفقت کی نظر سے دیکھا اور ارشاد فرمایا:

’یَا جُلَیْبِیبُ! أَلَا تَتَزَوَّجُ؟‘
’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘

جُلیبیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ جیسے آدمی سے بھلا کون شادی کرے گا؟

اللہ کے رسولﷺنے پھر فرمایا: 
’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘ اوروہ جواباً عرض گزار ہوئے کہ اللہ کے رسول! بھلا مجھ سے شادی کون کرے گا؟ نہ مال نہ جاہ و جلال!!
اللہ کے رسولﷺنے تیسری مرتبہ بھی ارشاد فرمایا: ’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟ جواب میں انہوں نے پھر وہی کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے شادی کون کرے گا؟ کوئی منصب نہیں میری شکل بھی اچھی نہیں، نہ میرا خاندان بڑا ہے اورنہ مال و دولت رکھتا ہوں۔

اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا:
’اِذْھَبْ إِلَی ذَاکَ الْبَیْتِ مِنَ الأَْنْصَارِ وَقُل لَّھُم: رَسُولُ اللّٰہِﷺ یُبْلِّغُکُمُ السَّلَامَ وَیَقُولُ: زوِّجُونِي ابْنَتَکُمْ۔‘
’’فلاں انصاری کے گھرجاو اور ان سے کہو کہ اللہ کے رسول تمھیں سلام کہہ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اپنی بیٹی سے میری شادی کردو۔‘‘

جُلیبیب خوشی خوشی اس انصاری کے گھر گئے اور دروازے پر دستک دی گھر والوں نے پوچھا کون؟
کہا: جُلیبیب۔
گھرکا مالک باہر نکلا جُلییب کھڑے تھے
پوچھا: کیا چاہتے ہو، کدھر سے آئے ہو؟
کہا: اللہ کے رسول نے تمھیں سلام بھجوایا ہے۔

یہ سننے کی دیر تھی کہ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اللہ کے رسول نے ہمیں سلام کا پیغام بھجوایا ہے۔ ارے! یہ تو بہت ہی خوش بختی کا مقام ہے کہ ہمیں اللہ کے رسول نے سلام کہلا بھیجا ہے۔

جُلیبیب کہنے لگے: آگے بھی سنو! اللہ کے رسولﷺنے تمہیں حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔

صاحب خانہ نے کہا: ذرا انتظار کرو، میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کرلوں۔ اندرجاکر لڑکی کی ماں کو پیغام پہنچایا اور مشورہ پوچھا؟ 
وہ کہنے لگی: نا 'نا، نا 'نا… قسم اللہ کی! میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے نہیں کروں گی، نہ خاندان، نہ شہرت، نہ مال و دولت، ان کی نیک سیرت بیٹی بھی گھر میں ہونے والی گفتگو سن رہی تھی اور جان گئی تھی کہ حکم کس کا ہے؟ کس نے مشورہ دیا ہے؟ سوچنے لگی اگر اللہ کے رسول اس رشتہ داری پرراضی ہیں تو اس میں یقینا میرے لیے بھلائی اور فائدہ ہے۔
اس نے والدین کی طرف دیکھا اور مخاطب ہوئی:

’أَتَرُدُّونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِﷺ أَمْرَہٗ؟ ادْفَعُونِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ’ﷺ فَإِنَّہُ لَنْ یُضَیِّعَنِی‘۔

’’کیا آپ لوگ اللہ کے رسول کا حکم ٹالنے کی کوشش میں ہیں؟ مجھے اللہ کے رسول کے سپرد کردیں(وہ اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہیں میری شادی کردیں) کیونکہ وہ ہر گزمجھے ضائع نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

پھر لڑکی نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی:
اور دیکھو! کسی مومن مرد وعورت کو اللہ اوراس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے امور میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘(الأحزاب33: 36)

لڑکی کا والد اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی: اللہ کے رسول! آپ کا حکم سر آنکھوں پر آپ کا مشورہ، آپ کا حکم قبول، میں شادی کے لیے راضی ہوں۔ جب رسول اکرم کو اس لڑکی کے پاکیزہ جواب کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:

’اللَّھُمَّ صُبَّ الخَیْرَ عَلَیْھَا صُبًّا وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَھَا کَدًّا۔‘
’’اے اللہ! اس بچی پر خیر اور بھلائی کے دروازے کھول دے اوراس کی زندگی کو مشقت و پریشانی سے دور رکھ۔‘‘
(موارد الظمآن: 2269، و مسند أحمد: 425/4، ومجمع الزوائد: 370/9وغیرہ)

پھر جُلیبیب کے ساتھ اس کی شادی ہوگئی۔ مدینہ منورہ میں ایک اور گھرانہ آباد ہو گیا جس کی بنیاد تقویٰ اور پرہیز گاری پر تھی، جس کی چھت مسکنت اور محتاجی تھی، جس کی آرائش و زیبائش تکبیر و تہلیل اور تسبیح و تحمید تھی۔ اس مبارک جوڑے کی راحت نماز اور دل کا اطمینان تپتی دوپہروں کے نفلی روزوں میں تھا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے یہ شادی خانہ آبادی بڑی ہی برکت والی ثابت ہوئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے مالی حالات اس قدر اچھے ہوگئے کہ راوی کا بیان ہے:

’فَکَانَتْ مِنْ أَکْثَرِ الأَْنْصَارِ نَفَقَۃً وَّمَالًا‘
’’انصاری گھرانوں کی عورتوں میں سب سے خرچیلا گھرانہ اسی لڑکی کا تھا۔‘‘

ایک جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا:

’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘
’’دیکھو! تمھارا کوئی ساتھی بچھڑ تو نہیں گیا؟‘‘

مطلب یہ تھا کہ کون کون شہید ہو گیا ہے؟
صحابہ نے عرض کیا: ہاں، فلاں فلاں حضرات موجود نہیں ہیں ...

پھر ارشاد ہوا:
’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘
’’کیا تم کسی اور کو گم پاتے ہو؟‘‘

صحابہ نے عرض کیا: نہیں۔

آپ نے فرمایا:
’لٰکِنِّي أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا فَاطْلُبُوہُ‘
’’لیکن مجھے جُلیبیب نظر نہیں آرہا، اس کو تلاش کرو۔‘‘

چنانچہ ان کو میدان جنگ میں تلاش کیا گیا۔
وہ منظر بڑا عجیب تھا۔ میدان جنگ میں ان کے ارد گرد سات کافروں کی لاشیں تھیں گویا وہ ان ساتوں سے لڑتے رہے اور پھر ساتوں کو جہنم رسید کرکے شہید ہوئے اللہ کے رسول کو خبر دی گئی۔ رؤف و رحیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اپنے پیارے ساتھی کی لاش کے پاس کھڑے ہوئے۔ منظر کو دیکھا۔ پھر فرمایا : 

’قَتَلَ سَبْعَۃً ثُمَّ قَتَلُوہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ۔‘
’’اس نے سات کافروں کو قتل کیا، پھر دشمنوں نے اسے قتل کردیا۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔‘‘

’فَوَضَعَہُ عَلَی سَاعِدَیْہِ لَیْسَ لَہُ إِلَّا سَاعِدَا النَّبِيَّ ﷺ‘۔
’’پھر آپ نے اپنے پیارے ساتھی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور شان یہ تھی کہ اکیلے ہی اس کو اٹھایا ہوا تھا۔ صرف آپ کو دونوں بازوئوں کا سہارا  میسر تھا۔‘‘

جُلیبیب رضی اللہ عنہ کے لیے قبر کھودی گئی، پھر نبیﷺنے اپنے دست مبارک سے انھیں قبر میں رکھا۔

                                                                     [صحیح مسلم: 2472]

Read More >>

Wednesday, 7 February 2018


نبی کریم ﷺ بطور مثالی شوہر


نبی کریمﷺ بحیثیت مثالی شوہر


وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۝۱۹   [سورۃالنساء  ٤: ۱۹] 
(اپنی بیویوں سے) اچھے طریقے سے بودوباش رکھو، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو، اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے۔

ازواج مطہرات:  

۱:  خد یجہ  بنتِ خُویلد رضی اللہ عنھا
۲:  عائشہ  بنتِ ابی بکر   رضی اللہ عنھا
۳:  حفصہ بنت عمر   رضی اللہ عنھا
۴:   سودہٗ بنت زمعۃ   رضی اللہ عنھا
۵:  زینب بنت جعش   رضی اللہ عنھا
۶:  زینب بنت خزیمہ   رضی اللہ عنھا
۷:  ا م سلمہ ہندبنت ابی اُمیّہ   رضی اللہ عنھا
۸:   ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان   رضی اللہ عنھا
۹:  میمونہ بنت الحارث بن حزن   رضی اللہ عنھا
۱۰:  جویریہ بنت الحارث بن ابی ضرار   رضی اللہ عنھا ‘  ان کا نام  ’’  بَر ۃ  ‘‘  تھا  ۔
۱۱:  صفیہ بنت حُیی   رضی اللہ عنھا
وفات کے وقت 9 ازواج مطہرات موجود تھیں۔
دو ازواج، حضرت خدیجہ اور زینب بنت خزیمہ پہلے فوت ہوئیں۔

خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ :

تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو:
بہترین کون ؟ 
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    ((خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي،‏‏‏‏ وَإِذَا مَاتَ صَاحِبُكُمْ فَدَعُوهُ   )).  [سنن الترمذی: 3895،  صحیح الجامع: 3314]
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے خیر باد کہہ دو، یعنی اس کی برائیوں کا ذکرنہ کرو“ 

*ہمارے معاشرے کی ابتر صورت حال (سعودی عرب میں شرح طلاق 21% تک پہنچ چکی ہے۔)

1۔ روزانہ کچھ وقت دیتے، سلام کہتے ، دُعا دیتے اور اظہار محبت کرتے

صبح کا معمول:

ابن عباس رضی اللہ عنہ کان إذا صلّی الصبح جَلَسَ فی مُصَلَّا ثم یدخُل علی نسآئہ امرءۃً امرءۃً، یُسَلّم علیھن ویدعولھن۔۔۔۔۔ [الطبرانی، الأوسط، 8764، سکت عنہ الحافظ]

پچھلے پہر(شام ) کا معمول:

عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا انصرف من العصر دخل على نسائه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيدنو من إحداهن ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فدخل على حفصة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاحتبس أكثر ما كان يحتبس‏.
ام المومنینعائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز سے فارغ ہو کر اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے اور ان میں سے ہر ایک کے قریب بھی بیٹھتے ۔ ایک دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے اور معمول سے زیادہ کافی دیر تک ٹھہرے رہے ۔
[صحیح بخاری: 5216]
خلاصہ: صبح صرف سلام، دُعاکرتے، خیریت دریافت فرماتے، محبت فرماتے۔۔۔۔
شام نشست فرماتے،قریب ہو کر بیٹھتے، گفتگو کرتے، محبت فرماتے۔۔۔۔۔

اکثر معمول:

عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏   يَا ابْنَ أُخْتِي، ‏‏‏‏‏‏كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُفَضِّلُ بَعْضَنَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْقَسْمِ مِنْ مُكْثِهِ عِنْدَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ قَلَّ يَوْمٌ إِلَّا وَهُوَ يَطُوفُ عَلَيْنَا جَمِيعًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَدْنُو مِنْ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْ غَيْرِ مَسِيسٍ حَتَّى يَبْلُغَ إِلَى الَّتِي هُوَ يَوْمُهَا فَيَبِيتَ عِنْدَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ قَالَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ حِينَ أَسَنَّتْ وَفَرِقَتْ أَنْ يُفَارِقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَوْمِي لِعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَبِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَقُولُ فِي ذَلِكَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى، ‏‏‏‏‏‏وَفِي أَشْبَاهِهَا أُرَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا سورة النساء آية 128  .  [سنن ابی داؤد: 2135]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ازواج مطہرات کے پاس رہنے کی باری میں بعض کو بعض پر فضیلت نہیں دیتے تھے اور ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے پاس نہ آتے ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے قریب ہوتے، محبت کا اظہارفرماتےہاں جماع نہ کرتے، اس طرح آپ اپنی اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور اس کے پاس رات گزارتے، اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عمر رسیدہ ہو گئیں اور انہیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں الگ کر دیں گے تو کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میری باری عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے رہے گی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات قبول فرما لی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ہم کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ میں  اور اسی جیسی چیزوں کے سلسلے میں آیت کریمہ: «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا» (سورۃ النساء: ۱۲۸)  نازل کی:  اگر عورت کو اپنے خاوند کی بدمزاجی کا خوف ہو ۔

۔آج کے مصروف دور میں اس پر عمل کی صورت

۔ ایک فون کال، SMS، شیرنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔ تہجد کے وقت بات چیت فرمالیتے

عن عائشة رضى الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا صلى ‏ {‏ سنة الفجر‏}‏ فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع حتى يؤذن بالصلاة‏. [صحیح البخاری: 1161]

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتےتو اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کو نماز کی اطلاع دی جاتی ۔

3۔ حق زوجیت ادا فرماتے

عن أنس بن مالك ،‏‏‏‏ قال :كان النبي صلى الله عليه وسلم يدور على نسائه في الساعة الواحدة من الليل والنهار ،‏‏‏‏ وهن إحدى عشرة‏.‏ قال: قلت لأنس: أوكان يطيقه ؟قال :كنا نتحدث أنه أعطي قوة ثلاثين‏.‏ 
سیدنا انس بن مالک نےفرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس جایا کرتے اور وہ گیارہ تھیں ۔ ( نو منکوحہ اور دو لونڈیاں ) راوی نے کہا ، میں نے انس سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت رکھتے تھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے 

[صحیح البخاری: 268، صحیح مسلم: 309]

4۔ سفر میں ساتھ لے جاتے

عن عائشة ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج أقرع بين نسائه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فطارت القرعة لعائشة وحفصة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان بالليل سار مع عائشة يتحدث ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالت حفصة ألا تركبين الليلة بعيري وأركب بعيرك تنظرين وأنظر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالت بلى فركبت فجاء النبي صلى الله عليه وسلم إلى جمل عائشة وعليه حفصة فسلم عليها ثم سار حتى نزلوا وافتقدته عائشة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما نزلوا جعلت رجليها بين الإذخر وتقول يا رب سلط على عقربا أو حية تلدغني ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا أستطيع أن أقول له شيئا
ام المومنین  عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ  جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے لئے قرعہ ڈالتے ۔ ایک مرتبہ قرعہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے نام نکلا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت معمولاً چلتے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلتے ۔ ایک مرتبہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ آج رات کیوں نہ تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر تاکہ تم بھی نئے مناظر دیکھ سکو اور میں بھی ۔ انہوں نے یہ تجویز قبول کر لی اور ( ہر ایک دوسرے کے اونٹ پر ) سوار ہو گئیں ۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کے اونٹ کے پاس تشریف لائے ۔ اس وقت اس پر حفصہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا ، پھر چلتے رہے ، جب پڑاؤ ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس میں نہیں ہیں ( اس غلطی پر عائشہ کو اس درجہ رنج ہوا کہ ) جب لوگ سواریوں سے اتر گئے تو ام المؤمنین نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لئے اور دعا کرنے لگی کہ اے میرے رب ! مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کر دے جو مجھ کو ڈس لے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کچھ کہہ نہیں سکتی تھی( کیونکہ یہ حرکت خود میری ہی تھی )۔ [صحیح بخاری: 5211، صحیح مسلم: 2445]

5۔ کھیل ،  تفریح،  فزیکل مقابلہ:

بیوی کے ساتھ دوڑ کا منفرد انداز

6۔ انتہائی وفادار، سابقہ تعلق کو یاد رکھنے والے:

عن عائشة  رضى الله عنها  قالت ما غرت على أحد من نساء النبي صلى الله عليه وسلم ما غرت على خديجة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وما رأيتها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولكن كان النبي صلى الله عليه وسلم يكثر ذكرها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وربما ذبح الشاة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم يقطعها أعضاء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم يبعثها في صدائق خديجة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فربما قلت له كأنه لم يكن في الدنيا امرأة إلا خديجة‏.‏ فيقول إنها كانت وكانت ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان لي منها ولد‏.
  ام المؤمنینعائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوںمیںجتنی غیرت مجھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی ، حالانکہ انہیں میں نے دیکھابھی نہیں تھا ، اس کی وجہ یہ تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کاذکربکثرت فرمایاکرتے تھے اور اگر کوئی بکری ذبح کرتے تو اس کےحصےکر کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوںکو بھیجتے تھے میں نے کئی بارحضور ﷺسے کہا : جیسے دنیا میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں ! ؟  اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اوروہ ایسی تھیں اور اسی سے میری اولاد ہے  نا ۔
[صحیح بخاری: 3818]
2۔ عائشہ کان رسول اللہﷺ إذا ذکر خدیجۃ لم یکن یَسْأم من ثناء علیھا، والاستغفار لَھَا۔
[الطبرانی الکبیر:16 / 319، حسنہ]

i۔ ذکرِخیر،  تعریف   ۔
ii۔ اولاد کا تعلق  ۔
iii۔ دعائے مغفرت  ۔
بعض لوگوں کا رویہ۔۔۔۔۔۔۔ مرحومہ کی غیبت۔۔۔۔۔۔ موجودہ کی تعریف


7۔ بیوی کی تعلق دار خواتین سے حسن سلوک

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اسْتَأْذَنَتْ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أُخْتُ خَدِيجَةَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِيجَةَ فَارْتَاحَ لِذَلِکَ فَقَالَ: ۰(( اللَّهُمَّ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ  ! ؟)) فَغِرْتُ فَقُلْتُ وَمَا تَذْکُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ حَمْرَائِ الشِّدْقَيْنِ هَلَکَتْ فِي الدَّهْرِ فَأَبْدَلَکَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا !؟ 
ام المؤمنینسیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ کی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ کا اجازت مانگنا یاد آ گیا تو آپ اس کی وجہ سے خوش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ یہ تو ہالہ بنت خویلد ہیں مجھے یہ دیکھ کر رشک آ گیا میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی بوڑھی عورتوں میں سے ایک بھاری گا لوں والی عورت کو یاد کرتے رہتے ہو،  ایک لمبی مدت ہوئی وہ انتقال کر چکیں تو اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بہتر بدل عطا فرمایا !؟ ۔
[صحیح مسلم: 2436]
عن انس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذھبوا بہ إلی فلانۃ۔۔۔۔۔۔
[الادب المفرد : 232]

۔بعض لوگوں کا مذموم رویہ ۔۔۔۔ بیویوں کی سہیلیوںں بلکہ بھائیوں، بہنوں اور والدین سے بدسلوک

8۔ نئی شادی پر آپﷺ کے گھرانے کا منفرد ماحول:

1۔ قال أنس بن مالك أنا أعلم الناس  بهذه الآية   آية الحجاب ،‏‏‏‏ لما أهديت زينب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كانت معه في البيت ،‏‏‏‏ صنع طعاما ،‏‏‏‏ ودعا القوم ،‏‏‏‏ فقعدوا يتحدثون ،‏‏‏‏ فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يخرج ،‏‏‏‏ ثم يرجع ،‏‏‏‏ وهم قعود يتحدثون ،‏‏‏‏ فأنزل الله تعالى ‏ {‏ يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه‏}‏ إلى قوله ‏ {‏ من وراء حجاب‏}‏ فضرب الحجاب ،‏‏‏‏ وقام القوم
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس آیت یعنی حجاب، پردہ والی آیت  ( کے شان نزول ) کے متعلق میں سب سے زیادہ جانتا ہوں ، جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور وہ آپ کے ساتھ آپ کے گھر ہی میں تھیں تو آپ نے کھانا( ولیمہ ) تیار کروایااور قوم کو بلایا ( کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ) لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر جاتے اور پھر اندر آتے ( تاکہ لوگ اٹھ جائیں ) لیکن لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ کہ ” اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو ۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں ( کھانے کے لئے ) آنے کی اجازت دی جائے ۔ ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو “ ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” من وراء حجاب “ تک،  اس کے بعد پردہ ڈال دیا گیا اور لوگ کھڑے ہو گئے ۔
[صحیح البخاری: 4792]
2۔ ہر ہر گھر میں سلام ’’جعل یمرعلی نسائہ‘‘
[صحیح مسلم: 1428]
۔ دوسری شادی کے موقع پر سابقہ بیوی کا خیال
۔ پہلی بیوی کا طرز عمل اور حسن سلوک
۔ گھر میں سلام
۔ خیریت دریافت کرنا

9۔ بیوی سے محبت کا اظہار فرماتے

۔۔
[صحیح مسلم: 2435]
2۔  عن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل ،‏‏‏‏ فأتيته فقلت:أى الناس أحب إليك؟  قال: ‏"‏ عائشة ‏"‏‏.‏ فقلت  : من الرجال؟   فقال ‏:"‏ أبوها ‏"‏‏.‏ قلت :  ثم من ؟  قال ‏:"‏ ثم عمر بن الخطاب ‏"‏‏.‏ فعد رجالا۔
سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ ذات السلاسل کے لیے بھیجا ( عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس سے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) سے میں نے پوچھا ، اور مردوں میں ؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے ، میں نے پوچھا ، اس کے بعد ؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی آدمیوں کے نام لیے ۔ [صحیح بخاری: 3662]
۔ نام لے کر محبت کا اظہار کرنا چاہیئے
۔ کھل کر بتانا چاہیئے
۔ محبت کا اظہار نہ کرنا عورت کی بے راہ روی کا سبب
۔خاوند کی بے رخی اور اغیار کی چالاکی

10۔ گھر سے الوداع ہوتے ہوئے اظہار محبت

1۔ -عن عائشة أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قبَّلَ بَعضَ نسائِهِ ، ثمَّ خرجَ إلى الصَّلاةِ ولم يتَوضَّأ ، قالَ : قلتُ : مَن هيَ إلَّا أنتِ ؟ قالَ : فضحِكَتْ۔
[سنن الترمذی: 79، سنن ابی داؤد: 178]

2۔  عن عائشة  رضى الله عنها  قالت :كان النبي صلى الله عليه وسلم يقبل ويباشر ،‏‏‏‏ وهو صائم ،‏‏‏‏ وكان أملككم لإربه‏.‏ 
ام المؤمنین سیدہعائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے لیکن ( اپنی ازواج کے ساتھ )   بوس و کنار اور مباشرت ( اپنے جسم سے لگا لینا ) کر لیتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے ۔

11۔ بیوی کی کھانے پینے والی چھوڑی ہوئی اشیاء کا محبت بھرا استعمال

-عن عائشۃ رضی اللہ عنہ قالت: كنتُ أشربُ وأنا حائضٌ ، ثم أُنَاوِلُه النبيَّ- صلى الله عليه وسلم ،فيَضَعُ فاه على موضِعِ فيَّ، فيشرب، وأَتَعَرَّقُ العَرَقَ وأنا حائضٌ ، ثم أُنَاوِلُه النبيَّ صلى الله عليه وسلم ، فيَضَعُ فاه على مَوضِعِ فيَّ . 
[صحیح مسلم: 300]
۔عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حتى إذا كنا بالبيداء أو بذات الجيش انقطع عقد لي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأقام الناس معه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليسوا على ماء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليس معهم ماء فأتى الناس إلى أبي بكر الصديق فقالوا ألا ترى ما صنعت عائشة أقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم وبالناس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليسوا على ماء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليس معهم ماء؟  فجاء أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع رأسه على فخذي قد نام ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليسوا على ماء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليس معهم ماء قالت عائشة فعاتبني أبو بكر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقال ما شاء الله أن يقول ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجعل يطعنني بيده في خاصرتي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حین أصبح على غير ماء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأنزل الله آية التيمم فقال أسيد بن حضير ما هي بأول بركتكم يا آل أبي بكر‏.‏ قالت فبعثنا البعير الذي كنت عليه فإذا العقد تحته‏.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش مقام تک پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کر وانے کے لیے وہیں قیام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا ۔ وہاں کہیں پانی نہیں تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی پانی نہیں تھا ۔ لوگ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : ملاحظہ نہیں فرماتے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کر رکھا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں ٹھہرا لیا اور لوگوںکو بھی ، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس پانی ہے ؟  سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ( میرے یہاں ) آئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرمبارک میری ران پر رکھ کرسو ئے ہوئےتھے، کہنے لگے :  تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب کو روک لیا ، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے ساتھ پانی ہے  !؟  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا مجھے کہا  اور ہاتھ سے میری کو کھ میں کچوکے لگائے ۔ میں نے صرف اس خیال سے کوئی حرکت نہیں کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو بیدار ہوئے، کہیں پانی کا نام و نشان نہ تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی تو اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آل ابی بکر ! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے ۔  ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرناتی ہیں : پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچےسے مل گیا ۔ [صحیح البخاری: 4607]

12۔ مخصوص ایام میں بھی اظہار محبت:

۔ مخصوص ایام میں بالکل قطع تعلقی یہودی رویہ
۔ مخصوص ایام میں جماع گندگی اور ناپاکی کا مظہر
۔راہ اعتدال ۔۔۔۔۔ سنت نبوی۔۔۔۔
۔ مخصوص ایام میں عورت کی نفسیاتی کیفیت اور پیچیدگیاں
۔مخصوص ایام میں طلاق کی ممانعت

13۔ خوبصورت نام سے بلانا:

عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها ‏"‏ يا عائشة ،‏‏‏‏ هذا جبريل يقرأ عليك السلام ‏"‏‏.‏ فقالت وعليه السلام ورحمة الله وبركاته‏.‏ ترى ما لا أرى‏.‏ تريد النبي صلى الله عليه وسلم‏.
ام المؤمنین سیدہعائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ” اے عائشہ ! یہ جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں ، تم کو سلام کہہ رہے ہیں ۔ ‘ ‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا :’’ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  ‘‘  آپ وہ چیزیں دیکھتے ہیں جنہیں میں نہیں دیکھ سکتی ، عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  تھے۔ [صحیح بخاری: 3217]
۔عن عائشۃ قالت دخل الحبشۃ المسجد یلعنون، فقال لی النبیﷺ یا حمیرا، أتحسبین ان تنظری إلیھم؟ فقلت: نعم۔
[النسائی، الکبریٰ: 8951، الصحیحۃ: 3277]
۔ عن  عائشۃ لما ولد عبداسللہ بن الزبیر أتیت بہ النبیﷺ فتفل فی فیہ، فکان أول شئ دخل جوفہ وقال: ھو عبداللہ وأنت ام عبداللہ فما زلتُ أکنّٰی بھا وما ولدت قطُّ۔ 
[ابن حبان، 7117، قال الارنؤوط إسنادہ قوِیٌّ]
۔ہمارا رویہ مختلف  نام بگاڑ کر رکھنا
14۔ راہ اعتدال ضروری ہے
1۔ دیگر اقارب کی حق تلفی نہ ہو، والدین کے حقوق
2۔ دینی معاملات میں بیوی کی تربیت، آخرت کی فکر
3۔ غیر شرعی معاملات میں اصول پر پابندی
تعارف قلتِ کلمۃ۔۔۔۔۔
15۔ جامع دعا
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۝۷۴ 
اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا ۔ [الفرقان  ٢٥:٧٤]





Fehm e Seerat | Day3 | Misali Shohar | Professor Ubaid ur Rehman Mohsin | Ellahabad | 28-11-17



Read More >>

Tuesday, 6 February 2018


رسول اللہ ﷺ کا اخلاق


حاجتنا إلى حسن الخلق

ترتیب: پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ

الحمد لله، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله - صلى الله عليه وآله وسلم.

 1) الأسوة الحسنة - صلى الله عليه وسلم - أحسن الناس خُلقًا:

قال - تعالى -: ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴾ [الأحزاب: 21].
  وقال - تعالى - مادحًا نبيَّه - صلى الله عليه وسلم -: ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾ [القلم: 4].
وعن قتادة قال لعائشة - رضي الله عنها -: يا أم المؤمنين، أنبئيني عن خُلق رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قالت: ألستَ تقرأ القرآن؟ قلت: بلى، قالت: "فإن خلق نبي الله كان القرآنَ"[1].
وعن أنس قال: "كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أحسن الناس خلقًا"[2].
  ويقول العلامة السعدي - رحمه الله - في تفسيره: "وقوله - تعالى - ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾ [القلم: 4]؛ أي: عاليًا به، مستعليًا بخُلقِك الذي منَّ الله عليك به، وحاصل خُلقِه العظيم ما فسَّرتْه به أم المؤمنين عائشة - رضي الله عنها - لمن سألها عنه، فقالت: "كان خلقه القرآنَ"، وذلك نحو قوله - تعالى - له: ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴾ [الأعراف: 199]، ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ﴾ [آل عمران: 159]، ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ ﴾ [التوبة: 128]، وما أشبه ذلك من الآيات الدالات على اتصافه - صلى الله عليه وسلم - بمكارم الأخلاق، والآيات الحاثَّات على الخلق العظيم؛ فكان له منها أكملها وأجلُّها، وهو في كل خصلة منها في الذروة العليا، فكان - صلى الله عليه وسلم - سهلاً لينًا، قريبًا من الناس، مجيبًا لدعوة مَن دعاه، قاضيًا لحاجة مَن استقضاه، جابرًا لقلب مَن سأله، لا يحرمه ولا يردُّه خائبًا، وإذا أراد أصحابه منه أمرًا وافقهم عليه، وتابعهم فيه إذا لم يكن فيه محذور، وإن عزم على أمر لم يستبدَّ به دونهم، بل يشاورهم ويؤامرهم، وكان يقبل من مُحسنهم، ويعفو عن مسيئهم، ولم يكن يعاشر جليسًا له إلا أتمَّ عشرةٍ وأحسنَها، فكان لا يعبس في وجهه، ولا يغلظ عليه في مقاله، ولا يطوي عنه بشره، ولا يمسك عليه فلتات لسانه، ولا يؤاخذه بما يصدر منه من جفوة، بل يحسن إلى عشيره غايةَ الإحسان، ويحتمله غاية الاحتمال - صلى الله عليه وسلم"[3].
  وكما ثبت في الصحيحين عن أنس قال: "خدمتُ النبي - صلى الله عليه وسلم - عشر سنين، فما قال لي: أفٍّ قط، وما قال لشيء صنعتُه: لِمَ صنعتَه؟ ولا لشيء تركتُه: لِمَ تركتَه؟ وكان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من أحسن الناس خلقًا"[4].
  وعن أنس بن مالك - رضي الله عنه - قال: لم يكن النبي - صلى الله عليه وسلم - سبَّابًا، ولا فحاشًا، ولا لعانًا، كان يقول لأحدنا عند المعتبة: ((ما له ترب جبينه؟))[5].
  وعن عائشة قالتْ: ما ضرب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - شيئًا قط بيده، ولا امرأةً، ولا خادمًا، إلا أن يجاهد في سبيل الله، وما نِيلَ منه شيءٌ قط فينتقم من صاحبه، إلا أن يُنتَهك شيء من محارم الله، فينتقم لله - عز وجل[6].

 2) مبعثه - صلى الله عليه وسلم - ليتممَ صالح الأخلاق ومكارمها:

عن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال: "لما بلغ أبا ذرٍّ مبعثُ النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لأخيه: اركبْ إلى هذا الوادي، فاعلم لي علمَ هذا الرجلِ الذي يزعم أنه نبي يأتيه الخبر من السماء، واسمعْ من قوله، ثم ائتِني، فانطلق الأخ حتى قدمه وسمع من قوله، ثم رجع إلى أبي ذر، فقال له: رأيته يأمر بمكارم الأخلاق، وكلامًا ما هو بالشعر..."؛ الحديث[7].
وعن أبي هريرة، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((إنما بُعِثت لأتمم صالح الأخلاق))[8].
  وفي قوله - تعالى -: ﴿ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴾ [البقرة: 151].
يقول الإمام ابن كثير - رحمه الله - في تفسيره: "يذكِّر - تعالى - عبادَه المؤمنين ما أنعم به عليهم من بعثة الرسول محمد - صلى الله عليه وسلم - إليهم، يتلو عليهم آياتِ الله مبيِّنات ويزكِّيهم؛ أي: يطهِّرهم من رذائل الأخلاق، ودنس النفوس، وأفعال الجاهلية، ويُخرِجهم من الظلمات إلى النور، ويعلِّمهم الكتابَ، وهو القرآن، والحكمةَ، وهي السنة، ويعلمهم ما لم يكونوا يعلمون؛ فكانوا في الجاهلية الجَهْلاء يسفهون بالقول الفرَى، فانتقلوا ببركة رسالته ويُمْن سفارته إلى حال الأولياء، وسجايا العلماء؛ فصاروا أعمق الناس علمًا، وأبرهم قلوبًا، وأقلهم تكلفًا، وأصدقهم لهجة، وقال - تعالى -: ﴿ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ﴾ [آل عمران: 164].

 3) محبة الله - تعالى - لمعالي الأخلاق وأحسن عباده خلقًا:

عن عامر بن سعد عن أبيه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((إن الله تعالى كريم يحب الكرماء، جواد يحب الجودة[9]، ويحب معالي الأخلاق، ويكره سفسافها[10]))[11].
  وعن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله: ((إن الله - عز وجل - جَوَاد يحب الجُود، ويحب معالي الأخلاق ويُبغِض سفسافها))[12].
  وعن أسامة بن شريك قالوا: فأيُّ الناس أحب إلى الله، يا رسول الله؟ قال: ((أحب عباد الله إلى الله، أحسنهم خلقًا))[13].
إذا أحب الله العبد حبب الناس فيه، قال صلى الله عليه وسلم :" إذا أحب الله عبدا نادى جبريل إني أحب فلانا فأحبه ، فيحبه جبريل ، ثم ينادي جبريل أهل السماء إن الله يحب فلانا فأحبوه ، فيحبه أهل السماء ثم يوضع القبول له في الأرض" .  رواه البخاري (56933)

 4) حب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لمن حَسُن خلقُه، وقربُه منه يوم القيامة:

عن عبدالله بن عمرو قال: إن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لم يكن فاحشًا ولا متفحشًا، وقال: ((إن من أحبكم إليَّ أحسنكم أخلاقًا))[14]، وفي رواية: "وإنه كان يقول: ((إن خياركم أحاسنكم أخلاقًا))[15].
  وعن أبي ثعلبة الخشني، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((إن أحبكم إليَّ وأقربكم مني في الآخرة، محاسنكم أخلاقًا، وإن أبغضكم إليَّ وأبعدكم مني في الآخرة، مساوئكم أخلاقًا، الثرثارون، المُتَفَيهِقون، المتشدِّقون))[16].

 5) حسن الخلق أثقل شيء في ميزان العبد يوم القيامة:

عن أبي الدرداء - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: ((ما من شيء أثقل في الميزان من حسن الخلق))[17]، وعنه - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: ((مَن أُعطي حظَّه من الرفق، فقد أُعطي حظه من الخير، ومَن حُرِم حظَّه من الرفق، فقد حُرم حظه من الخير، أثقل شيء في ميزان المؤمن يوم القيامة حسن الخلق، وإن الله ليبغض الفاحش البذيء[18]))[19].

 6) حسن الخلق أكثر ما يُدخِل الناسَ الجنةَ:

عن أبي هريرة، قال: "سئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن أكثر ما يَلِج الناس به النار، فقال: ((الأجوفان: الفم، والفرج))، وسئل عن أكثر ما يلج الناس به الجنة؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((حسن الخلق))، وفي رواية: ((أكثر ما يلج به الإنسان النار الأجوفان: الفم، والفرج، وأكثر ما يلج به الإنسان الجنة: تقوى الله - عز وجل - وحسن الخلق))[20].
  وعن أبي أمامة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((أنا زعيم ببيت في رَبَض الجنة، لمن ترك المِراء وإن كان محقًّا، وببيت في وسط الجنة لمن ترك الكذب وإن كان مازحًا، وببيت في أعلى الجنة لمن حَسُن خلُقُه))[21].

 7) أكمل المؤمنين إيمانًا وخير المسلمين وأفضلهم أحسنُهم خلقًا:

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ((أكمل المؤمنين إيمانًا أحسنهم خلقًا))[22].
  وعنه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((أكمل المؤمنين إيمانًا أحسنهم خلقًا، وخيارهم خيارهم لنسائهم))[23]، وفي رواية: ((خيركم إسلامًا أحاسنكم أخلاقًا، إذا فقهوا))[24]، وفي رواية: ((خيركم في الإسلام أحاسنكم أخلاقًا، إذا فقهوا))[25]، وفي رواية: ((أفضل المؤمنين إسلامًا مَن سَلِم المسلمون من لسانه ويده، وأفضل المؤمنين إيمانًا أحسنهم خلقًا، وأفضل المهاجرين مَن هجر ما نهى الله - تعالى - عنه، وأفضل الجهاد مَن جاهد نفسه في ذات الله - عز وجل))[26].

 8) حسن الخلق خير ما أُعطي الناس:

عن أسامة بن شريك، قال: أتيتُ النبي - صلى الله عليه وسلم - بعرفات فسلَّمت عليه، وكأن على رؤوس أصحابه الطير، فجاءتْه الأعراب من ههنا وههنا: يا رسول الله، علينا حرج في كذا وكذا؟ علينا حرج في كذا وكذا؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((عباد الله، رَفَع الله الحرج إلا مَن اقترض من امرئ مسلم ظلمًا، فذلك الذي حَرِجَ وهلك))، قالوا: يا رسول الله، نتداوى؟ قال: ((تداووا؛ فإن الله - عز وجل - لم يُنْزِل داءً إلا وضع له دواءً إلا الهَرم))، قالوا: يا رسول الله، فما خير ما أُعطي الناس؟ فقال: ((إن الناس لم يعطوا شيئًا خيرًا من خلق حسن))[27].

9) فلفسۃ ارکان الاسلام

10) رفع درجات مَن حسن خلقه:

عن عائشة - رضي الله عنها - قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:((إن الرجل ليُدرِك بحسن خلقه درجاتِ قائم الليل صائم النهار))[28].

11) البر حسن الخلق:

عن النواس بن سمعان الأنصاري - رضي الله عنه - قال: سألتُ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن البر والإثم، فقال: ((البر حسن الخلق، والإثم ما حاك في صدرك وكرهتَ أن يطلع عليه الناس))[29].

12) وصیتہ الخاصۃ

وعن أبي ذر، قال: قال لي رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((اتقِ الله حيثما كنت، وأتبع السيئةَ الحسنةَ تمحُها، وخالِقِ الناس بخُلق حسن))[30].
  يقول الإمام ابن رجب - رحمه الله - في جامع العلوم والحكم: "((وخالق الناس بخلق حسن)): هذا من خصال التقوى، ولا تتم التقوى إلا به، وإنما أفرده - صلى الله عليه وسلم - بالذكر للحاجة إلى بيانه؛ فإن كثيرًا من الناس يظن أن التقوى هي القيام بحق الله، دون حقوق عباده، فنصَّ له على الأمر بإحسان العشرة للناس"[31].
  وعن عبدالله بن عمر: أن معاذ بن جبل أراد سفرًا، فقال: يا رسول الله، أوصني، قال: ((اعبدِ الله، ولا تشركْ به شيئًا))، قال: يا رسول الله، زدْني، قال: ((إذا أسأت، فأحسن))، قال: يا رسول الله، زدني، قال: ((استقم، ولتحسن خلقك))[32].

13) حسن الخلق ھوا الحسن الحقیقی

وعن قتادة قال: كان يقال: "مثل المرأة السيئة الخلق كالسقاء الواهي في المعطشة، ومثل المرأة الجميلة الفاجرة كمثل خنزيرٍ في عنقه طوق من ذهب"[33].
اسباب حسن الخلق 
1) الدعاء : وكان النبي - صلى الله عليه وسلم - يدعو ربَّه في الاستفتاح للصلاة بأن يهديَه لأحسن الأخلاق ويصرف عنه سيِّئَها، بقوله: ((واهدني لأحسن الأخلاق، ولا يهدي لأحسنها إلا أنت، واصرف عني سيِّئَها، ولا يصرف عني سيئها إلا أنت...))؛ الحديث[34].
  ولقوله - صلى الله عليه وسلم -: ((اللهم اغفر لي ذنوبي وخطاياي كلَّها، اللهم أنعشني واجبرني، واهدني لصالح الأعمال والأخلاق؛ فإنه لا يهدي لصالحها ولا يصرف سيئها إلا أنت))[35].
  2) الأخلاق بين الطبع والتطبع:
وكما يكون الخُلق طبيعة، فإنه قد يكون كسبًا، بمعنى أن الإنسان كما يكون مطبوعًا على الخلق الحسن الجميل، فإنه أيضًا يمكن أن يتخلق بالأخلاق الحسنة عن طريق الكسب والمرونة.
  ولذلك قال النبي - صلى الله عليه وسلم - لأشجِّ عبدالقيس: ((إن فيك خلتينِ يحبهما اللهُ: الحلم والأناة))، قال: يا رسول الله، أنا أتخلق بهما، أم الله جبلني عليهما؟ قال: ((بل الله جبلك عليهما))، قال: الحمد لله الذي جبلني على خلتين يحبهما اللهُ ورسوله[36].
  فهذا دليل على أن الأخلاق الحميدة الفاضلة تكون طبعًا وتكون تطبعًا، ولكن الطبع بلا شكٍّ أحسن من التطبع؛ لأن الخلق الحسن إذا كان طبيعيًّا صار سجيةً للإنسان وطبيعة له، لا يحتاج في ممارسته إلى تكلف، ولا يحتاج في استدعائه إلى عناء ومشقة، ولكن هذا فضل الله يؤتيه مَن يشاء، ومَن حُرِم هذا - أي: حُرِم الخُلق عن سبيل الطبع - فإنه يمكنه أن يناله عن سبيل التطبع؛ وذلك بالمرونة، والممارسة، ومجاهدة النفس لابتغاء مرضاة الله، وثقْ بأنه سيوفقك الله إلى أحسن الأخلاق؛ لقوله - تعالى -: ﴿ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [العنكبوت: 69][37].
  يقول الإمام ابن كثير في تفسيره: ﴿ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا ﴾؛ يعني: الرسول - صلوات الله وسلامه عليه - وأصحابه، وأتباعه إلى يوم الدين، ﴿ لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ﴾؛ أي: لنبصرنَّهم سبلنا؛ أي: طرقنا في الدنيا والآخرة.
  3) وعن عبدالله - رضي الله عنه - قال: "إن الله - تعالى - قَسَمَ بينكم أخلاقَكم، كما قسم بينكم أرزاقكم، وإن الله - تعالى - يعطي المال مَن أحب ومَن لا يحب، ولا يعطي الإيمان إلا مَن يحب، فمَن ضنَّ بالمال أن ينفقه، وخاف العدوَّ أن يجاهده، وهاب الليل أن يكابده؛ فليكثر من قول: لا إله إلا الله، وسبحان الله، والحمد لله، والله أكبر"[38].




[1] مسلم (746).
[2] البخاري (6203)، ومسلم (2150).
[3] تفسير الكريم الرحمن؛ للإمام السعدي - رحمه الله.
[4] البخاري برقم (6038)، ومسلم (2309)، وأحمد (13044)، وأبو داود (4774)، والترمذي (2015).
[5] البخاري (6031)، وأحمد في "المسند" (12296).
[6] البخاري (6853)، ومسلم (2328) واللفظ له، وأحمد (25756)، وأبو داود (4785)، وابن ماجه (1984).
[7] البخاري (3861).
[8] أخرجه أحمد (8939)، تعليق شعيب الأرناؤوط: صحيح، وهذا إسناد قوي رجاله رجال الصحيح، غير محمد بن عجلان؛ فقد روى له مسلم متابعة، وهو قوي الحديث، و"البخاري" في "الأدب المفرد" (273)، وصححه الألباني في "الصحيحة" (45).
[9] جودة: جمع جواد، هو المبالغ في الكرم، وقيل: الجواد: هو الذي يعطي بلا مسألة؛ صيانةً للآخذ من ذل المسألة، وقال الشاعر:
وما الجودُ مَن يعطي إذا ما سألتَه  
ولكن مَن يعطي بغير سؤالِ 
[10] سفسافها: حقيرها ورديئها.
[11] تاريخ دمشق لابن عساكر [14 / 289]، تعليق الألباني: "صحيح"، صحيح الجامع [1800].
[12] حلية الأولياء [5 / 29]، تعليق الألباني: "صحيح"، صحيح الجامع [1744].
[13] صحيح: أخرجه الطبراني (471)، قال المنذري (3/274): رواته محتجٌّ بهم في الصحيح، وقال الهيثمي (8/24): رجاله رجال الصحيح، وابن حبان (486)، قال شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح، والطبراني في الأوسط (6380)، والحاكم (8214)، وسكت عنه الذهبي، وصححه الألباني في"صحيح الجامع" (179).
[14] البخاري (3759).
[15] البخاري (6035)، ومسلم (2321)، وأحمد في "المسند" (6818)، والترمذي (1975).
[16] صحيح: رواه البخاري في" الأدب المفرد (633)، وأحمد (17767، 17778)، تعليق شعيب الأرناؤوط: حسن لغيره، وابن حبان في "صحيحه" (482، 5557)، وقال شعيب الأرناؤوط: رجاله ثقات على شرط مسلم، والبيهقي في "شعب الإيمان"، وصحَّحه الألباني في" صحيح الجامع" (1535)، والترمذي (2018) عن جابر بن عبدالله - رضي الله عنهما.
[17] صحيح: رواه أحمد في "المسند" (27536، 27577)، تعليق شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح، وأبو داود [4799]، تعليق الألباني: "صحيح".
[18] البذيء: هو الرديء والقبيح من الكلام.
[19] البخاري في الأدب المفرد [464] باب الرفق، تعليق الألباني: "صحيح".
[20] أخرجه أحمد (7894، 9085، 9694)، والبخاري في "الأدب المفرد" (289، 294)، وابن ماجه (4246)، والترمذي (2004)، وابن حبان (476)، وحسنه الألباني.
[21] حسن: رواه أبو داود (4800)، قال الشيخ الألباني: حسن.
[22] صحيح: رواه أبو داود (4682)، وابن حبان في "صحيحه"، وصححه الألباني في "صحيح الجامع" (1230).
[23] صحيح: رواه أحمد (7396)، تعليق شعيب الأرناؤوط: صحيح، وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير محمد بن عمرو، فمن رجال أصحاب السنن، والترمذي (1162)، وابن حبان (4176)، وصححه الألباني في "صحيح الجامع" (1232).
[24] صحيح: رواه أحمد في" المسند" (10068، 10245)، تعليق شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح على شرط مسلم.
[25] صحيح: رواه أحمد في" المسند" (10237)، تعليق شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح على شرط مسلم، رجاله ثقات رجال الشيخين غير حماد بن سلمة، فمن رجال مسلم.
[26] أخرجه الطبراني (13/18 رقم 26)، وأخرجه أيضًا: ابن نصر في تعظيم قدر الصلاة (2/600، رقم 639)، وصححه الألباني في "صحيح الجامع" (1129).
[27] صحيح: رواه أحمد (18477) تعليق شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين غير أنه لم يخرج له سوى أصحاب السنن، وابن حبان (6061)، وابن ماجه (3436)، وصححه الألباني في "صحيح الجامع" (1977).
[28] رواه الحاكم [199] كتاب الإيمان، تعليق الحاكم: "هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه، وشاهده صحيح على شرط مسلم"، تعليق الذهبي في التلخيص: "على شرطهما"، تعليق الألباني: "صحيح"، صحيح الجامع [1620]، الصحيحة [794].
[29] مسلم ( 2553 )، والبخاري في "الأدب المفرد" (295)، وأحمد في "المسند" (17668)، الترمذي (2389).
[30] حسن: أخرجه أحمد (21681، 21732، )، والدارمي ( 2791 )، و"الترمذي" ( 1987)، وحسنه.
[31] جامع العلوم والحكم، ط. دار المنار ومكتبة فياض، الطبعة الأولى (1/185).
[32] حسن: رواه الطبراني، والحاكم في "المستدرك" (179)، والبيهقي في "شعب الإيمان"، وحسنه الألباني في "صحيح الجامع" (951).
[33] رواه عبدالرزاق في "مصنفه" (20600).
[34] مسلم (771)، وأحمد (803)، وأبو داود (760)، والترمذي (3421، 3422)، والنسائي (897) عن علي بن أبي طالب.
[35] حسن: رواه الطبراني في "الكبير"، وحسنه الألباني في "صحيح الجامع" (1266).
[36] رواه مسلم (17) عن ابن عباس، وأبو داود (5225) عن أم أبان بنت الوازع بن زارع، عن جدها زارع، واللفظ له، ومسلم (18) عن أبي سعيد الخدري.
[37] "مكارم الأخلاق"؛ للعلامة محمد بن صالح العثيمين، حتى قوله: والممارسة.
[38] صحيح موقوف في حكم المرفوع: رواه البخاري في "الأدب المفرد" (275)، وصححه الألباني في "الصحيحة" (2714).


اخلاق مصطفی ﷺ

Read More >>

Monday, 5 February 2018


استاد کی اہمیت

دنیا کا خوبصورت ترین رشتہ ’’استاد‘‘ مگر


استاد دنیا کا خوبصورت ترین لفظ ہے اور تدریس کا شعبہ دنیا کے بہترین شعبوں میں سے ایک ہے۔ استاد شاگرد کا رشتہ دنیا کا بے لوث اور بے غرض رشتہ ہوتا ہے۔ اگر استاد نہ ہوتے جہالت کے کانٹے انسانیت کا دامن تار تار کردیتے، یہ استاد ہی ہے جو ایک معاشرتی حیوان کو علم سے روشناس کرواکے انسانیت کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ یوں تو بچے کے کردار کی تعمیر میں ماں باپ کا بھی ہاتھ ہوتا ہے مگر چونکہ استاد کا کام صرف اور صرف تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کی تربیت اور اسے تہذیب سکھانا ہے اس لئے اس سلسلے میں استاد کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔

دنیا میں جتنے بڑے لوگ پیدا ہوئے انہوں نے پہلے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے پھر دنیا میں نام کما کر امر ہوئے۔ تمام بڑے لوگ اپنے استاد کی ہی محنت کا ثمر تھے۔ علامہ اقبال کو جب انگریز سرکار نے خطاب سے نوازا تو انہوں نے اپنے استاد کو ”شمس العلماء“ کا خطاب دینے کی درخواست کی۔ جب ان سے استاد کی تصنیف طلب کی گئی تو اقبال عظیم نے برملا کہا کہ میں ہوں ان کی تصنیف۔

استاد کی اہمیت و فضیلت

جس طرح ایک استاد کی اہمیت اور فضیلت ہوتی ہے ویسے ہی کچھ اہم ترین ذمہ داریاں بھی لاگو ہوتی ہیں۔ اساتذہ کو جہاں تک ممکن ہو سختی کا مزاج نہیں اپنانا چاہیے۔ بے جا مار پیٹ بچوں کی ذہنی نشونما کے لیے سخت مضر ہے۔ طلبہ پر اپنے بچوں کی طرح پیار نچھاور کریں اور سختی کو تیر بہدف نسخہ سمجھنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے ٹھنڈے دل سے سوچ لیجئے کہ اگر سختی مار پیٹ کوئی بہتر چیز ہوتی تو سرکاردو عالم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیم و تربیت کے لیے نرمی والا مزاج نہ اپناتے۔

ہر طالب علم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے الگ الگ توجہ دینی چاہیے تاکہ ان میں پڑھنے لکھنے کا شوق بیدار ہو۔ کندذہن اور نالائق بچے استاد کی توجہ و تربیت کے ذہین بچوں سے زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کو حیران کن صلاحیتیں رکھنے والا دماغ عطا کیا ہے۔ جس کو بروئے کار لاکر آپ نالائق اور کندذہن بچوں کو حصول علم کے لیے شوق و رغبت پر ابھارسکتے ہیں۔ یہ بچے بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اگر ان پر محنت کی جائے تو آگے جاکر یہ معاشرے میں بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اسی طرح آپ ایک بہترین اور آئیڈیل کردار کے طور پر طلبہ کے سامنے خود کو پیش کریں۔ طلبہ کے سامنے پہناؤ اور گفتار ایسا ہونا چاہیے کہ بچے بغیر کچھ کہے انہیں فالو کرتے ہوئے اچھے سے اچھے کی جانب بڑھیں۔ اگر آپ کسی دینی ادارے میں تدریس سے وابستہ ہیں تو سر سے پاوں تک شریعت کے مزاج میں رنگا ہونا آپ پر فرض ہے۔ بچے اپنے استاد کو جس طرح دیکھتے ہیں اسی انداز میں خود کو ڈھالتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں طالب علم استاد کا عکس ہوتا ہے اور بڑے ہوکر استاد بننا 50فیصد بچوں کا خواب

Read More >>

Sunday, 4 February 2018


فضیلتِ علم

علم کی فضیلت


نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم


‘‘ يَرْفَعِ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ’’
وَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللہُ لَہٗ بِہٖ طَرِیْقًا اِلَی الجَنَّۃِ (او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم)۔

سبب کیا ہے؟ تو اس کو خود سمجھتا ہے
زوالِ بندۂ مؤمن کا، بے زری سے نہیں 
جہاں میں جوہر اگر کوئی آشکارا ہوا
قلندری سے ہوا ہے، تو نگری سے نہیں

محترم سامعین!۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ                   

آج میں آپ حضرات کے سامنے ’’علم کی فضیلت‘‘ کے موضوع پر چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سامعین گرامی۔۔۔۔۔۔!۔
علم کا معنی آتا ہے جاننے کے چنانچہ علماء اور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت پر اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے چوبیس گھنٹے کی زندگی شریعت کے احکام کے مطابق گزار سکے اور حلال اور حرام پاکی اور ناپاکی میں تمیز اور فرق کر سکے۔
حضورﷺ کا ارشاد ہے ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٗ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

سامعین محترم!۔۔۔۔
علم ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے انسان اور حیوان میں تمیز کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اور علم ہی وہ نعمت ہے جس کے بدولت آدم علیہ السلام مسجود ملائکہ بنتا ہے۔۔۔۔۔ ہاں، ہاں علم ہی وہ کیمیائے سعادت ہے جو مخلوق کو خالق سے اور عبد کو معبود سے قریب تر کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
‘‘قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۹ۧ’’
[زمر: 9]

یعنی جاننے والا اور نہ جاننے والے دونوں کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ حدیث میں آتا ہے جب کوئی آدمی علم کے راستے کو اختیار کرتا ہے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ جنت کے راستے کو آسان کر دیتے ہیں اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔۔۔۔۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔

رَضِیْنَا قِسْمَۃَ الْجَبَّارِ فِیْنَا
لَنَا عِلْم وَلِلْجھَّالِ مَالُ

یعنی ہم اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر راضی ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے تو علم مقرر کیا گیا اور جاہلوں کے لئے مال۔ شیخ سعدی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے:۔

برو دامن علم گیر ستوار
کہ علمت رساند بدار القرار

جاؤ علم کے دامن کو مضبوطی سے تھام لو کیونکہ تمہیں جنت میں پہنچائے گا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں علم نافع عطا فرمائے اور دین متین کی عالی محنت کے لئے قبول فرمائے۔ (آمین)۔

وما علینا الا البلاغ المبین
Read More >>

Saturday, 3 February 2018


اسلام میں عورت کی کیا حیثیت ہے

اسلام میں عورت کا مقام

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد! فأعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً
(صدق اللہ العظیم)
محترم سامعین!۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج میری تقریر کا موضوع ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ کے عنوان سے معنون ہے۔

سامعین گرامی۔۔۔۔۔۔!۔
لفظ ’’عورت‘‘ کا معنی لغت میں ’’چھپانے کی چیز‘‘ کے ہیں۔۔۔۔۔ اس لغوی معنی کو سنتے ہی ایک ذی شعور انسان جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ادنیٰ عقلل و فراست سے نوازا بخوی جان لے گا کہ جہاں عورت ہو گی وہاں پردہ ضرور ہو گا۔۔۔۔ گویا عورت اور پردہ لازم اور ملزوم ہے۔۔۔۔۔ اور یہی پردہ شریعت کو مطلوب ہے۔۔۔۔ جو معاشرے کی طہارت اور ماحول کی نظافت کا ضامن ہے ۔۔۔۔ ہاں! پردہ جس کے اندر بقائے انسانیت اور احیائے نسلیت کا راز مضمر ہے۔۔۔۔۔ جس کے بغیر اس کائنات میں امن و امان اور سکون و آشتی کاقیام ناممکن ہے۔

سامعین مکرم۔۔۔۔۔!۔

عورت ذات کو اسلام نے جو مرتبہ اور مقام عطا فرمایا ہے اس سے دیگر مذاہب تہی دامن ہے۔۔۔۔۔ چنانچہ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اسلام سے قبل لفظ ’’عورت‘‘ ناقابل سماعت تھی۔ عورت کی قدر راہ پڑی چیز سے زیادہ نہ تھی۔۔ بچیوں کو زندہ درگور کیا جانا معیوب نہ تھا۔۔۔ عورت نجاست کا ڈھیر اور شیطان کی نمائندہ تھی۔۔۔ ایّام مخصوص میں ان کے لیے الگ جگہ مقرر تھی۔۔۔۔ بچی کی ولادت کی خبر انتہائی ناگوار تھی۔۔۔۔ عورت ذات محض ایک کھلونا تھا۔۔۔۔ بے حیائی اور بے پردگی سرِ عام تھی۔۔۔۔۔ ہر گلی اور کوچے میں عورت کی عزت کا نیلام تھا۔

لیکن میرے محبوبﷺ کے آمد مسعود سے عورت کو دنیا میں جینے کا صحیح حق ملا۔۔۔ معاشرے میں باعزت مقام ملا۔۔۔ کہیں بیٹی، کہیں بہن، کہیں بیوی اور کہیں ماں جیسی عظیم الشان صفات ملی۔۔۔۔ عورتوں کو گھر کی مالکن ہونے کا شرف ملا۔۔۔ تین بچیوں کی تربیت کرنے پر جنت کی نوید ملی۔۔۔۔ ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت ملی۔

سامعین محترم۔۔۔۔۔۔۔!۔

مجھے فخر ہے کہ دینِ اسلام عورت ذات کے متعلق کسی بھی قسم کی تحقیر، توہین اور تذلیل آمیز نظریات نہیں رکھتا۔۔۔۔ بلکہ مجھے کہنےدیجیئے! اس عورت ذات نے مجھے زندگی عطا کی ہے، لہٰذا میں اس سے زندہ رہنے کا حق نہیں چھین سکتا۔۔۔ اس نے میری نجاستیں دھو کر مجھے انگلی سے پکڑ کر زمین پر چلنے کا طریقہ سکھایا، لہٰذا میں اس کے پاؤں تلے سے زمین نہیں چھین سکتا۔۔۔۔ اس کا ودیعت کردہ خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے، لہٰذا شیطان کا دروازہ یا گناہوں کا محل نہیں کہہ سکتا۔۔۔ اس نے اپنی زندگی کی ہر سانس کے ساتھ مجھے دعائوں سے نوازا ہے، لہٰذا میں اسے حقارت آمیز گالیاں نہیں دے سکتا۔۔۔۔ اس نے مجھے کامل و مکمل بنایا ہے، لہٰذا میں اسے نامکمل نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔ اس نے مجھے گھر کی پرسکون اور پر امن ماحول عطا کی ہے، لہٰذا میں اسے فتنہ و فساد کی جڑ قرار نہیں دے سکتا۔۔۔۔ یہ میرا لباس ہے، لہٰذا میں اسے نگِ انسانیت کا طعنہ نہیں دے سکتا۔

 معزز سامعین۔۔۔۔!۔

آج پھر اس صنفِ نازک پر مختلف انواع کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔۔۔۔ آزادیٔ نسواں کے پُر فریب نعروں سے ان کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔۔۔ کہیں فیشن اور کہیں مقابلۂ حسن کے نام پر ان کو سرِ عام ننگا کیا جارہا ہے۔۔۔ ہر کس و ناکس عورت ذات کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔۔۔۔ اور آزادی کے نام پر عورت کو بہن ، بیٹی، بیوی اور ماں بننے کے اعزاز سے روکا جارہا ہے۔۔۔ عورتوں کو کلبوں اور محفلوں میں نچایا جارہا ہے۔۔۔ ان کی عزت و ناموس کو ہر گلی کوچے میں لوٹا جا رہا ہے۔۔۔۔ باریک کپڑوں میں ملبوس ہونا قابلِ عزت مانا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ بھری سڑک میں مختصر لباس میں چلنے پھرنے کو ترقی کہا جا رہا ہے۔۔۔۔ ’’الامان، الحفیظ‘‘ اب تو ان سے ہاکی اور کرکٹ بھی کھلوایا جا رہا ہے۔۔۔ الغرض بنت ہوا کو ذلیل و خوار کیا جارہا ہے ۔۔۔۔ جس کو آزادیٔ نسواں کا نام دیا جا رہا ہے۔

شاعر کہتا ہے۔۔۔۔!۔
آزادی یہ نہیں کہ عورت بے حیا ہو جائے
فیشن یہ نہیں کہ عورت بے قبا ہو جائے 
اسلام ہی ہے سب کے لئے مثل چراح بہنو!۔
روشنی یہ نہیں کہ عورت بے ضیاء ہو جائے

حاضرین مجلس۔۔۔!۔

یہی ناسور اور ناپاک اور عیاش لوگ قرآنی احکام میں تاویل کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ علماء ربانیین کو دقیانوسیت کے القاب دے رہے ہیں۔۔۔۔۔ عورتوں کو ان کے اصلی مقام اور مرتبہ بتانے والوں کو تنگ نظر کہا جا رہا ہے۔۔۔۔ عورتوں کو ان کا حق دلوانا ظلم بتایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے مسلم حکمران بھی ان ناپاک نعروں کے مستی میں جھوم رہے ہیں۔۔۔۔ مسلمانوں کے نام نہاد دانشور غیر مسلموں اور فرنگیوں کی تقلید میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔

افسوس میرے مسلمان بھائیو! اب تو ہوش کے ناخن لیجئے۔۔۔۔ اب تو اپے ضمیر کو جھنجھوڑیئے۔۔۔۔۔ خدارا اب تو اپنی قومی حمیت اور ایمانی غیرت سے کام لیجئے۔۔۔۔۔ ورنہ سنیئے! تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔۔ تمہیں عزیز الحق مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار جگاتے ہیں۔۔۔۔!۔

 دستِ قدرت نے بتا کب حسن کو عریاں کیا
ابر میں پانی، شرر کو سنگ میں پنہاں کیا
مشک کو نافے میں رکھا اور بوکوپھول میں
پھول کو کانٹے میں رکھ کر حفظ کا سامان کیا
درصدف میں، سیم و زر کو کان میں مخفی کیا
جب کبھی باہر نکالا در بدر حیران کیا
حسن کی ہر اک ادا جب اس طرح مستور تھی
حسنِ زن کو تو نے ظالم کس لئے عریاں کیا

وما علینا الّا البلاغ المبین
Read More >>

Friday, 2 February 2018


مطالعہ کی اہمیت



مطالعہ سے کیا ملتا ہے ؟ 



علامہ اقبال رحمہ اللہ کے مطابق 

 ۔۔۔مطالعہ انسان کے لئے اخلاق کا معیار ہے۔

امام غزالی رحمہ اللہ

 ۔۔۔ بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔

حکیم ابو نصر فارابی رحمہ اللہ

 ۔۔۔ تیل کے لئے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا۔ 

ایڈیسن

 ۔۔۔ورزش سے جسم مضبوط ہوتا ہے اورمطالعے کی دماغ کے لئے وہی اہمیت ہے جو ورزش کی جسم کے لئے۔ 

بیکن

 ۔۔۔ مطالعہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے۔ 
۔۔۔مطالعہ کسی سے اختلاف کرنے یا فصیح زبان میں گفتگو کرنے کی غرض سے نہ کرو بلکہ ’’تولنے‘‘ اور’’سوچنے‘‘کی خاطر کرو۔ 
 ۔۔۔ مطالعے سے خلوت میں خوشی، تقریر میں زیبائش، ترتیب وتدوین میں استعداد اور تجربے میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ 


سمر سٹ ماہم

۔۔۔مطالعے کی عادت اختیار کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے گویا دنیا جہاں کے دکھوں سے بچنے کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کرلی ہے۔ 

چینی ضرب المثل

۔۔۔ تین دن بغیر مطالعہ گزار لینے کے بعد چوتھے روز گفتگو میں پھیکا پن آجاتا ہے۔

سسرو

۔۔۔انسان قدرتی مناظر اورکتابوں کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ 

وائٹی

 ۔۔۔ مطالعے کی بدولت ایک طرف تمہاری معلومات میں اضافہ ہوگا اوردوسری طرف تمہاری شخصیت دلچسپ بن جائے گی۔ 

تلسی داس

 ۔۔۔دماغ کے لئے مطالعے کی وہی اہمیت ہے جو کنول کے لئے پانی کی۔ 

ملٹن

۔۔۔جس طرح کئی قسم کے بیج کی کاشت کرنے سے زمین زرخیز ہو جاتی ہے، اسی طرح مختلف عنوانات پر کتابوں اوررسالوں وغیرہ کا مطالعہ انسان کے دماغ کو منور بنادیتا ہے۔ 

 ولیم جیمز

۔۔۔ جو نوجوان ایمانداری سے کچھ وقت مطالعے میں صرف کرتا ہے، تو اسے اپنے نتائج کے بارے میں بالکل متفکر نہ ہونا چاہئے۔ 

 میکالے

 ۔۔۔ وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے، لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے جس کو مطالعہ کا شوق نہیں 

شیلے

۔۔۔ مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لئے اوراس کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ 

گاندھی جی

۔۔۔ دنیا میں ایک باعزت اورذی علم قوم بننے کے لئے مطالعہ ضروری ہے مطالعہ میں جو ہر انسانی کو اجاگر کرنے کا راز مضمر ہے۔ 

جیفر سن

 ۔۔۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کتابوں کے مطالعے نے انسان کے مستقبل کو بنادیا ہے۔ 

سینکا

۔۔۔ تم مطالعہ اس لئے کرو کہ دل ودماغ کو عمدہ خیالات سے معمور کر سکونہ کہ اس طمع سے کہ تھیلیاں روپوں سے بھر پور ہوں۔ 





Mutalia ki ahmiyat or Afadiate in urdu


Read More >>


Copyright © 2016 - Ilm o Adab - All Rights Reserved
(Articles Cannot Be Reproduced Without Author Permission.)
| Powered By: Islamic Stories