Latest: Add Latest Article Here | Recommended: Add Recommended Article Here

Ilm o Adab website you have Seerat un Nabi PBUH, Quotes of the Day, Azkar e Masnoona, Stories, Model Speech like waldain ki azmat and much more.


Sunday, 11 February 2018


غلبہ اسلام اور سیرت النبیﷺ

سیرت النبیﷺ اور غلبۂ اسلام

ہُوَالَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَہٗ بِالْہُدٰي وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْہِرَہٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّہٖ  وَلَوْ كَرِہَ الْمُشْرِكُوْنَ۝  [التوبۃ: 33]
وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس (دین) کو (دنیا کے) تمام دینوں پر غالب کرے۔ اگرچہ کافر ناخوش ہی ہوں 
ظَہَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيْقَہُمْ بَعْضَ الَّذِيْ عَمِلُوْا لَعَلَّہُمْ يَرْجِعُوْنَ۝۴۱ [الروم: 4]
خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب فساد پھیل گیا ہے تاکہ خدا اُن کو اُن کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے عجب نہیں کہ وہ باز آجائیں 

i۔ برصغیر 

۔ مذہبی صورتحال

  • 33 سے 33 کروڑ
  • ڈاکٹر گستاولی بان (Gustav le Bon) فرانسیسی محقق نے ’’تمدن ہند‘‘ میں لکھا ہے:

’’زندگی کی کوئی ضرورت پوری کرنے والی چیز دیوتا بن چکی تھی۔ جمادات، نباتات، معدنیات، پہاڑ، دریا، حیوانات حتی کہ آلات تناسل‘‘۔۔۔
’’لنگم اور یونی کی قابل شرم کہانی۔۔۔

۔ معاشرتی صورتحال

منو سمرتی  ہندوستانی سماج کے لیے مرتب کردہ سماجی قانون  کے مطابق 
قادر مطلق نے ۔۔۔۔ منہ ، بازئووں، رانوں اور پیروں سے، ۔۔۔ برہمن، کھتری، ویش، شودر۔
شودر برہمن ہاتھ لگائے تو ہاتھ کاٹ۔۔۔۔ گالی۔۔۔۔ زبان تالو سے کھینچ  دی جادعوی کرے کہ تعلیم دے سکتا ہے۔۔۔ تو کھولتا ہوا تیل اسے پلایا جائے۔۔۔  کتے۔۔۔ بلی۔۔۔ مینڈک۔۔۔ کوے۔۔۔ الو۔۔۔او ر شودر کو مارنے کا کفارہ برابر ہے۔

ii۔ روم و ایران (قیصر و کسری)

ایران  -   سیاسی صورتحال
ایران کے بادشاہ اس بات کے مدعی تھے ۔۔۔ ان کی رگوں میں خدا کا خون ۔۔۔ چوکھٹ پر سجدے کرتے ۔۔۔ ان کی الوہیت کے ترانے گاتے۔۔۔ نام تک نہ لیا جاتا۔۔۔ 
عین عہد نبوی ادھر سراج منیر کی کرنیں طلوع ہو رہی تھیں۔۔۔ ایران خسرو پرویز (590 - 628 عہد حکومت) کی تکبر کی یہ صورت حال تھی۔۔۔ کتبوں میں اس کا یہ القاب باقاعدہ لکھا تھا: ’’خدائوں میں انسان غیر فانی، انسانوں میں خدائے لاثانی‘‘ ۔۔۔

ایران کا بادشاہ

½2 سونے کے تاج کے نیچے بیٹھتا۔۔۔ کلاہ کی قیمت 

ایران کا آخری بادشاہ

ایک ہزار باورچی، ایک ہزار مغنی ، ایک ہزار چیتوں کے خادم،  شکروں کے ایک ہزار نگران، اس کے باوجود وہ اپنے آپ کو قابل رحم سمجھتا تھا۔ (ایران بعہد ساسانیاں، پروفیسر آرتھر، 339) 

وحشیانہ سزائیں

شاہان ایران اپنی توہین، تضحیک پر موت کے سزا دیتے اور بعض سزائیں انتہائی وحشیانہ نہ ہوتی تھیں۔ ان میں سے کشتیوں کا عذاب سب سے خوفناک تھا۔ کبھی مجرموں کو دیوار میں زندہ گاڑ دیا جاتا، زندہ کی کھال کھینچی جاتی، چو میخہ کرنا، ، اردوشیر سوم کے بارے میں روایات تمدن قدیم میں لکھا ہے کہ اس کے اپنے ایک سپاہی کو اپنی توہین کا انتقام لینے کے لیے دو کشتیاں بنوائیں، اور اس انداز میں کہ وہ ایک دوسری پو پوری طرح جفت ہوسکیں، جوڑی جاسکیں، ایک کشتی میں سپاہی کو لٹا کر دوسری اس پر مضبوطی سے جڑ دی۔ اس کے ہاتھ، پائوں اور منہ کشتی سے باہر رکھے گئے، سترہ دن اسی عذاب میں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔ 
[روایات تمدن قدیم، ص 158 - 159]
بعض جنگی قیدیوں کو مرنے کے بعد بھی ان کی کھال اتارتے، بھس بھروا کر کسی بڑے آتشکدے میں بطور عبرت رکھ دیتے۔
[دائرہ المعارف جوان ، ص 376 ،  377، غلبۂ روم ، ص:  30]
خسروپرویز نے اپنے نام کے ساتھ باقاعدہ یہ القاب لکھوا رکھے تھے:
’’خدائوں میں انسان غیر فانی، اور انسانوں میں خدائے لائے نی‘‘
[ایران بعہد ساسانیاں،  ص: 339 ، بحوالہ سیرت انسائیکلوپیڈیا،  1/ 400]
جب اسلام فتوحات کے نتیجے میں ایران کا آخری تاجدار یزدگرد اپنے دارالحکومت مدائن سے فرار ہوا۔ تو اس حالت میں بھی اس کے ساتھ ایک ہزار باورچی، ایک ہزار مغنی، ایک ہزار چیتوں کے منتظم، اور ایک ہزار شیروں کی دیکھ بھال کرنے والے خدم چشم اور مصاحبین موجود تھے۔ اس کے باوجود وہ محسوس کرتا تھا کہ سامان تعیش کی کمی کے باعث قابل رحم ہے۔
[تاریخ ایران ، ص: 498]

معاشرتی صورتحال

مزدک  نامیملحد ایرانی فلسفی کا گروہ ۔۔۔ عورت، آگ، پانی اور چارے کی مانند۔۔۔
5ویں صدی کے وسط کا حکمران یزدگردوم ۔۔۔۔ بیٹی (طبری) بہرام چوبیں 6 صدی عیسوی ۔۔۔ بہن ۔۔۔ (ایران بعہد ساسانیاں۔۔۔) 
مزدک ۔۔۔ عورتوں کو سب کیلئےحلال قرار دیا۔۔۔ (شہرستانی، الملل والنحل)
قیصر روم
اہل کتاب بستے تھے۔۔۔ یہودی اور عیسائی۔۔۔
610؁ء عہد نبوی کے بالکل قریب یہودیوں نے عیسائیوں کے خلاف یلوہ کیا۔۔۔ مشہور فوجی ابنوسوس Bonosos نے پوری یہودی آبادی کا خاتمہ کیا۔۔۔ ہزاروں کو تلوار سے مارا۔۔۔ سینکڑوں غرق ۔۔۔ درندوں کے سامنے ۔۔۔

قیصر روم فوکاس

نبی علیہ السلام کی نبوت سے 8 سال پہلے ۔۔۔ فوکاس نامی جرنیل نے قیصر روم ماریس کے خلاف بغاوت کر دی ۔۔۔ اور تخت سلطنت پر قابض ہو گیا ۔۔۔ مارس کو5 بیٹوں کے ساتھ گھسیٹ کر لایا گیا ۔۔۔ پہلے بیٹوںکو قتل۔۔۔ باپ بیٹوں کے کٹے ہوئے سر ۔۔۔ قسطنطنیہ کے دروازوں پر لٹکا دیئے گئے۔۔۔ بادشاہ کی ملکہ اور تین بیٹیوں کی آنکھیں چھیدی گئیں۔۔۔ زبانیں گدی سے کھینچ ۔۔۔ پھر یکے بعد دیگرے ۔۔۔ ہاتھ پائوں کاٹ ۔۔۔ برہنہ جسموں پر تاز یانے ۔۔۔ پھر انہیں جلتے الائو میں پھینک دیا گیا۔ 
[غلبۂ روم ۔ ص: 67 - 68، بحوالہ سیرت انسائیکلوپیڈیا : 1  /  488]

یورپ

رومی حکمرانوں نے یورپ میں ایک گول اکھاڑہ بنوایا تھا ۔۔۔ کولوسیم Colosseum نیم دائرہ وی سیڑھیوں میں 50 ہزار تماشائی بیٹھ سکتے تھے۔۔۔ مسلح جنگجوؤں اور وحشی درندوں کے مقابلے ہوتے ۔۔ تاریخ بتاتی ہے ۔۔۔ کبھی اس میں نہتے باغیوں اور غلاموں کو دھکیل دیا جاتا ۔۔۔ بھوکے شیر اور چیتے چھوڑ دیئے جاتے۔۔[Oxford English Refrence Dictionary, P.286]

انقلاب نبوی کی ایک جھلک

مکی دور (تقریباً 13 سال) 

*   اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِيْ خَلَقَ۝ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ۝ اِقْرَاْ وَرَبُّكَ الْاَكْرَمُ۝الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِ۝عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ۝

ترجمہ: (اے محمدﷺ) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے (عالم کو) پیدا کیا ۔ جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے ۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا ۔ اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جس کا اس کو علم نہ تھا ۔  [العلق: 1  - 5]
*   يٰٓاَيُّہَا الْمُدَّثِّرُ۝قُـمْ فَاَنْذِرْ۝ وَرَبَّكَ فَكَبِّرْ۝وَثِيَابَكَ فَطَہِرْ۝ وَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ۝ وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ۝ وَلِرَبِّكَ فَاصْبِرْ۝
ترجمہ: اے (محمدﷺ) جو کپڑا لپیٹے پڑے ہو ۔ اُٹھو اور ہدایت کرو ۔ اور اپنے پروردگار کی بڑائی کرو ۔ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔ اور ناپاکی سے دور رہو۔ اور (اس نیت سے) احسان نہ کرو کہ اس سے زیادہ کے طالب ہو۔ اور اپنے پروردگار کے لئے صبر کرو۔   [المدثر : 1 - 7]

*   يٰٓاَيُّہَا الْمُزَّمِّلُ۝ قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا۝نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِيْلًا۝اَوْ زِدْ عَلَيْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِيْلًا۝اِنَّا سَـنُلْقِيْ عَلَيْكَ قَوْلًا ثَـقِيْلًا۝  اِنَّ نَاشِـئَۃَ الَّيْلِ ہِيَ اَشَدُّ وَطْـاً وَّاَقْوَمُ قِيْلًا۝اِنَّ لَكَ فِي النَّہَارِ سَبْحًا طَوِيْلًا۝ وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلْ اِلَيْہِ تَبْتِيْلًا۝ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَفَاتَّخِذْہُ وَكِيْلًا۝ وَاصْبِرْ عَلٰي مَا يَقُوْلُوْنَ وَاہْجُرْہُمْ ہَجْرًا جَمِيْلًا۝

ترجمہ: اے (محمدﷺ) جو کپڑے میں لپٹ رہے ہو ۔  رات کو قیام کیا کرو مگر تھوڑی سی رات۔ (قیام) آدھی رات (کیا کرو)۔ یا اس سے کچھ کم یا کچھ زیادہ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو ۔ ہم عنقریب تم پر ایک بھاری فرمان نازل کریں گے۔ کچھ شک نہیں کہ رات کا اٹھنا (نفس بہیمی) کو سخت پامال کرتا ہے اور اس وقت ذکر بھی خوب درست ہوتا ہے ۔ دن کے وقت تو تمہیں اور بہت سے شغل ہوتے ہیں ۔ تو اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو اور ہر طرف سے بےتعلق ہو کر اسی کی طرف متوجہ ہوجاؤ ۔ مشرق اور مغرب کا مالک (ہے اور) اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بناؤ ۔ اور جو جو (دل آزار) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں ان کو سہتے رہو اور اچھے طریق سے ان سے کنارہ کش رہو ۔    [المزمل: 1 - 10] 

*  تحنث   (حدیث عائشہ)
*  تعلیم
*  قُم
*  انداز
* تکبیر
* تطہیر
*  شرک سے بیزاری
* قیام الیل۔ تلاوت
* ہُوَالَّذِيْ بَعَثَ فِي الْاُمِّيّٖنَ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ يَتْلُوْا عَلَيْہِمْ اٰيٰتِہٖ وَيُزَكِّيْہِمْ وَيُعَلِّمُہُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَۃَ۝۰ۤ وَاِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ۝
ترجمہ:  وہی تو ہے جس نے ان پڑھوں میں ان ہی میں سے (محمدﷺ) کو پیغمبر (بنا کر) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھتے اور ان کو پاک کرتے اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں۔ اور اس ے پہلے تو یہ لوگ صریح گمراہی میں تھے۔   [الجمعہ: 2]

* تلاوت ۔ تعلیم کتاب۔ تعلیم حکمت۔ تزکیہ

مدنی دور 10 سالہ

*  غزوہ بدر 2 ھ * معرکۂ تبوک
* غزوہ أحد *حجۃ الوداع 10ھ
* فتح مکہ    8ھ *19غزوات
* 63 سرایا
* 259 شہداء، 759کفار مقتولین
*  مدنی ریاست  30 لاکھ مربع کلومیٹر
* 10 سالہ مدت  روزانہ 822 کلو میٹر
*  10 ہجری میں  ایک لاکھ چالیس ہزار مسلمان
[پیغمبر اسلام ، ڈاکٹر حمید اللہ، ص: 670]

خلفائے الاسلام

قال ابوبکر واللہ لوددت أنی کنت شجرۃ تؤکل و تُعضد وددت أنی خضرۃ تاکلنی الدواب
أن عمر رأی آبابکر وھو مدل لسانہ آخذبیدہ فقال: ما تصنع یا خلیفۃ رسول اللہ! فقال؛ إن ھذا أوردنی المواردا!؟]
قالت عائشۃ: مات ابوبکر فما ترک دینارا ولا درھماً
عن عائشۃ قالت: إن أبابکر حین حضرتہ الوفاۃ  قال لعائشۃ، إنی لاأعلم لآل بکر من ھذا المال شئ الا ھذہ اللقحۃ، وھذا الغلام العقیل کان یعمل سیوف المسلمین، ویخدِمنا، فإذامُتُّ فادفَعیہ إلی عمر رضی اللہ عنہ، فلما بعثت بہ إلی عمر قال: یرحم اللہ أبکر لقد أتعب من بعدہ
۔قال ابوبکر لما احتضر: انظر وا ثوبی  ھذین فاغسلوھما فکفنونی فیھما فان الحي أحوج إلی الجدید من المیت۔
[کتاب الزھد، لابن، حنبل]

عمر بن الخطاب

* انس بن مالک : سمعت عمر بن الخطاب وخرجت معہ حتی دخل حائطاً فسمعتہ یقول: وبینی وبینہ جدار، وھو فی جوف الحائط، عمر أمیرالمؤمنین بغ واللہ یا ابن الخطاب لتتقین اللہ أولیعذبنک۔
* عن عثمان بن عفان إلی لشاہد عمر بن الخطاب ۔۔۔ ، وھو یقول: ویلی وویل أمی إن لم یغفرلی ۔۔۔ ثلاثاً۔۔۔
* کان فی وجہ عمر خطان أسودان من البکاء ۔۔۔
[کتاب الزھد، امام احمد]
عَنْ تَمِيمٍ الدَّارِيِّ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَيَبْلُغَنَّ هَذَا الْأَمْرُ مَا بَلَغَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ، وَلَا يَتْرُكُ اللَّهُ بَيْتَ مَدَرٍ وَلَا وَبَرٍ إِلَّا أَدْخَلَهُ اللَّهُ هَذَا الدِّينَ بِعِزِّ عَزِيزٍ، أَوْ بِذُلِّ ذَلِيلٍ، عِزًّا يُعِزُّ اللَّهُ بِهِ الْإِسْلَامَ، وَذُلًّا يُذِلُّ اللَّهُ بِهِ الْكُفْرَ ".
[مسند احمد: 16957]



Fehm e Seerat Course | Day 4 | Ghalba e Islam | Prof. Ubaid ur Rehman Mohsin | Ellahabad | 29-11-17



Read More >>

Saturday, 10 February 2018


حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور کا ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ


حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی عدالت

دو نوجوان سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی محفل میں داخل ہوتے ہی محفل میں بیٹھے ایک شخص کے سامنے جا کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اور اس کی طرف انگلی کر کے کہتے ہیں۔

’’یا عمررضی اللہ عنہ یہ ہے وہ شخص!‘‘

سیدنا عمر ؓ ان سے پوچھتے ہیں۔ 
’’کیا کیا ہے اس شخص نے؟‘‘
’’یا امیر المؤمنین، اس شخص نے ہمارے باپ کو قتل کیا ہے۔‘‘

کیا کہہ رہے ہو، اس نے تمہارے باپ کو قتل کیا ہے؟
سیدنا عمررضی اللہ عنہ ان سے پوچھتے ہیں۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پھر اس شخص سے مخاطب ہو کر پوچھتے ہیں۔
کیا تو نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے؟

وہ شخص کہتا ہے :
ہاں امیر المؤمنین، مجھ سے قتل ہو گیا ہے ان کا باپ۔
کس طرح قتل کیا ہے؟

سیدنا عمرؓ پوچھتے ہیں۔
یا عمررضی اللہ عنہ، ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے کھیت میں داخل ہو گیا تھا، میں نے منع کیا، باز نہیں آیا تو میں نے ایک پتھر دے مارا۔ جو سیدھا اس کے سر میں لگا اور وہ موقع پر مر گیا۔

پھر تو قصاص دینا پڑے گا، موت ہے اس کی سزا۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں۔
نہ فیصلہ لکھنے کی ضرورت، اور فیصلہ بھی ایسا اٹل کہ جس پر کسی بحث و مباحثے کی بھی گنجائش نہیں۔ نہ ہی اس شخص سے اس کے کنبے کے بارے میں کوئی سوال کیا گیا ہے، نہ ہی یہ پوچھا گیا ہے کہ تعلق کس قدر شریف خاندان سے ہے؟ نہ ہی یہ پوچھنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے کہ تعلق کسی معزز قبیلے سے تو نہیں؟ معاشرے میں کیا رتبہ یا مقام ہے؟ ان سب باتوں سے بھلا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو مطلب ہی کیا ہے؟؟؟ کیوں کہ معاملہ اللہ کے دین کا ہو تو عمررضی اللہ عنہ پر کوئی بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کوئی اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ کو روک سکتا ہے۔ حتی کہ سامنے عمرؓ کا اپنا بیٹا ہی کیوں نہ قاتل کی حیثیت سے آ کھڑا ہو، قصاص تو اس سے بھی لیا جائے گا۔

وہ شخص کہتا ہے۔ 
اے امیر المؤمنین: اس کے نام پر جس کے حکم سے یہ زمین و آسمان قائم کھڑے ہیں۔ مجھے صحراء میں واپس اپنی بیوی بچوں کے پاس جانے دیجیئے تا کہ میں ان کو بتا آؤں کہ میں قتل کر دیا جاؤں گا۔ ان کا اللہ اور میرے سوا کوئی آسرا نہیں ہے، میں اس کے بعد واپس آ جاؤں گا۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں: 
کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحراء میں جا کر واپس بھی آ جائے گا؟

مجمع پر ایک خاموشی چھا جاتی ہے۔ کوئی بھی تو ایسا نہیں ہے جو اس کا نام تک بھی جانتا ہو۔ اس کے قبیلے، خیمے یا گھر وغیرہ کے بارے میں جاننے کا معاملہ تو بعد کی بات ہے۔

  کون ضمانت دے اس کی؟ کیا یہ دس درہم کے ادھار یا زمین کے ٹکڑے یا کسی اونٹ کے سودے کی ضمانت کا معاملہ ہے؟ ادھر تو ایک گردن کی ضمانت دینے کی بات ہے، جسے تلوار سے اڑا دیا جانا ہے۔
اور کوئی ایسا بھی تو نہیں ہے جو اللہ کی شریعت کی تنفیذ کے معاملے پر عمرؓ سے اعتراض کرے، یا پھر اس شخص کی سفارش کی لئے ہی کھڑا ہو جائے۔ اور کوئی ہو بھی نہیں سکتا جو سفارشی بننے کی سوچ سکے۔

محفل میں موجود صحابہ رضی اللہ عنہم پر ایک خاموشی سی چھا گئی ہے، اس صورتحال سے خود حضرت عمر ؓ بھی متأثر ہیں۔ کیوں کہ اس شخص کی حالت نے سب کو ہی حیرت میں ڈال کر رکھ دیا ہے۔ کیا اس شخص کو واقعی قصاص کے طور پر قتل کر دیا جائے اور اس کے بچے بھوکوں مرنے کے لئے چھوڑ دیئے جائیں؟ یا پھر اس کو بغیر ضمانتی کے واپس جانے دیا جائے؟ واپس نہ آیا تو مقتول کا خون رائیگاں جائے گا!

خود سیدنا عمررضی اللہ عنہ سر جھکائے افسردہ بیٹھے ہیں۔ اس صورتحال پر، سر اُٹھا کر التجا بھری نظروں سے نوجوانوں کی طرف دیکھتے ہیں، 

معاف کر دو اس شخص کو۔
نہیں امیر المؤمنین، جو ہمارے باپ کو قتل کرے، اس کو چھوڑ دیں، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا، نوجوان اپنا آخری فیصلہ بغیر کسی جھجھک کے سنا دیتے ہیں۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک بار پھر مجمع کی طرف دیکھ کر بلند آواز سے پوچھتے ہیں۔

اے لوگو ، ہے کوئی تم میں سے جو اس شخص کی ضمانت دے؟
حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ اپنے زہد و صدق سے بھر پور بڑھاپے کے ساتھ کھڑے ہو کر کہتے ہیں۔

میں ضمانت دیتا ہوں اس شخص کی!

سیدنا عمررضی اللہ عنہ کہتے ہیں
ابوذر ، اس نے قتل کیا ہے۔
چاہے قتل ہی کیوں نہ کیا ہو، ابوذررضی اللہ عنہ اپنا اٹل فیصلہ سناتے ہیں۔

عمررضی اللہ عنہ :’’جانتے ہو اسے؟‘‘
ابوذررضی اللہ عنہ :’’نہیں جانتا اسے‘‘

عمررضی اللہ عنہ : ’’تو پھر کس طرح ضمانت دے رہے ہو؟‘‘

ابوذررضی اللہ عنہ :’’میں نے اس کے چہرے پر مومنوں کی صفات دیکھی ہیں، اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ شخص جھوٹ نہیں بول رہا، ان شاء اللہ یہ لوٹ کر واپس آ جائے گا۔‘‘

عمررضی اللہ عنہ : ’’ابوذررضی اللہ عنہ دیکھ لو اگر یہ تین دن میں لوٹ کر نہ آیا تو مجھے تمہاری جدائی کا صدمہ دیکھنا پڑے گا۔‘‘

امیر المؤمنین، پھر اللہ مالک ہے۔ ابوذر اپنے فیصلے پر ڈٹے ہوئے جواب دیتے ہیں۔
سیدنا عمررضی اللہ عنہ سے تین دن کی مہلت پا کر وہ شخص رخصت ہو جاتا ہے، کچھ ضروری تیاریوں کے لئے، بیوی بچوں کو الوداع کہنے، اپنے بعد اُن کے لئے کوئی راہ دیکھنے، اور اس کے قصاص کی ادئیگی کیلئے قتل کئے جانے کی غرض سے لوٹ کر واپس آنے کیلئے۔

اور پھر تین راتوں کے بعد، عمر رضی اللہ عنہ بھلا کیسے اس امر کو بھلا پاتے، انہوں نے تو ایک ایک لمحہ گن کر کاٹا تھا، عصر کے وقت شہر میں (الصلاۃ جامعہ) کی منادی پھر جاتی ہے، نوجوان اپنے باپ کا قصاص لینے کیلئے بے چین اور لوگوں کا مجمع اللہ کی شریعت کی تنفیذ دیکھنے کے لئے جمع ہو چکا ہے۔

حضرت ابوذررضی اللہ عنہ بھی تشریف لاتے ہیں اور آ کر حضرت عمررضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ جاتے ہیں۔

’’کدھر ہے وہ آدمی؟‘‘

سیدنا عمررضی اللہ عنہ سوال کرتے ہیں۔
’’مجھے کوئی پتہ نہیں ہے یا امیر المؤمنین‘‘، 

ابوذررضی اللہ عنہ مختصر جواب دیتے ہیں۔
ابوذررضی اللہ عنہ آسمان کی طرف دیکھتے ہیں، جدھر سورج ڈوبنے کی جلدی میں آج معمول سے زیادہ تیزی کے ساتھ جاتا دکھائی دے رہا ہے۔
محفل میں ہو کا عالم ہے، اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آج کیا ہونے جا رہا ہے؟

یہ سچ ہے کہ ابوذررضی اللہ عنہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے دل میں بستے ہیں، عمررضی اللہ عنہ سے ان کے جسم کا ٹکڑا مانگیں تو عمررضی اللہ عنہ دیر نہ کریں، کاٹ کر ابوذررضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں۔ لیکن ادھر معاملہ شریعت کا ہے، اللہ کے احکامات کی بجا آوری کا ہے، کوئی کھیل تماشہ نہیں ہونے جا رہا، نہ ہی کسی کی حیثیت یا صلاحیت کی پیمائش ہو رہی ہے، حالات و واقعات کے مطابق نہیں اور نہ ہی زمان و مکان کو بیچ میں لایا جانا ہے۔ قاتل نہیں آتا تو ضامن کی گردن جاتی نظر آ رہی ہے۔

مغرب سے چند لحظات پہلے وہ شخص آ جاتا ہے۔ بےساختہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کے منہ سے اللہ اکبر کی صدا نکلتی ہے، ساتھ ہی مجمع بھی اللہ اکبر کا ایک بھرپور نعرہ لگاتا ہے۔

حضرت عمررضی اللہ عنہ اس شخص سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔

اے شخص، اگر تو لوٹ کر نہ بھی آتا تو ہم نے تیرا کیا کر لینا تھا، نہ ہی تو کوئی تیرا گھر جانتا تھا اور نہ ہی کوئی تیرا پتہ جانتا تھا

امیر المؤمنین، اللہ کی قسم، بات آپ کی نہیں ہے، بات اس ذات کی ہے جو سب ظاہر و پوشیدہ کے بارے میں جانتا ہے، دیکھ لیجئے میں آ گیا ہوں، اپنے بچوں کو پرندوں کے چوزوں کی طرح صحراء میں تنہا چھوڑ کر، جدھر نہ درخت کا سایہ ہے اور نہ ہی پانی کا نام و نشان۔ میں قتل کر دیئے جانے کیلئے حاضر ہوں۔ مجھے بس یہ ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے وعدوں کا ایفاء ہی اُٹھ گیا ہے۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ابوذررضی اللہ عنہ کی طرف رخ کر کے پوچھا۔

ابوذررضی اللہ عنہ، تو نے کس بنا پر اس کی ضمانت دے دی تھی؟
ابوذررضی اللہ عنہ نے کہا،
اے عمررضی اللہ عنہ، مجھے اس بات کا ڈر تھا کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں سے خیر ہی اٹھا لی گئی ہے۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے ایک لمحے کیلئے توقف کیا اور پھر ان دونوں نوجوانوں سے پوچھا۔
کہ کیا کہتے ہو اب؟

نوجوانوں نے روتے ہوئے جواب دیا، 

اے امیر المؤمنین، ہم اس شخص کی صداقت کی وجہ سے اسے معاف کرتے ہیں، ہمیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اب لوگوں میں سے عفو اور درگزر ہی اُٹھا لیا گیا ہے۔

سیدنا عمررضی اللہ عنہ اللہ اکبر پکار اُٹھے اور آنسو ان کی داڑھی کو تر کرتے نیچے گر رہے تھے۔۔۔۔
اے نوجوانو! تمہاری عفو و درگزر پر اللہ تمہیں جزائے خیر دے۔

اے ابوذررضی اللہ عنہ! اللہ تجھے اس شخص کی مصیبت میں مدد پر جزائے خیر دے۔
اور
اے شخص، اللہ تجھے اس وفائے عہد و صداقت پر جزائے خیر دے۔
اور اے امیر المؤمنین، اللہ تجھے تیرے عدل و رحمدلی پر جزائے خیر دے۔

محدثین میں سے ایک یوں کہتے ہیں،
قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اسلام اور ایمان کی سعادتیں تو عمررضی اللہ عنہ کے کفن کے ساتھ ہی دفن ہو گئی تھیں۔

Read More >>

Friday, 9 February 2018



اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو

ایک صحابیؓ جلیل کا بہت ہی خوبصورت واقعہ اور دنیا کے لیے ایک مثالی نمونہ


صحابئ رسول حضرت جلیبیب رضی اللہ عنہ ایک انصاری صحابی تھے۔ نہ مالدار تھے نہ کسی معروف خاندان سے تعلق تھا۔ صاحب منصب بھی نہ تھے۔ رشتہ داروں کی تعداد بھی زیادہ نہ تھی۔ رنگ بھی سانولا تھا۔ لیکن اللہ کے رسولﷺکی محبت سے سرشار تھے۔ بھوک کی حالت میں پھٹے پرانے کپڑے پہنے اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوتے، علم سیکھتے اورصحبت سے فیض یاب ہوتے۔

ایک دن اللہ کے رسول نے شفقت کی نظر سے دیکھا اور ارشاد فرمایا:

’یَا جُلَیْبِیبُ! أَلَا تَتَزَوَّجُ؟‘
’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘

جُلیبیب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھ جیسے آدمی سے بھلا کون شادی کرے گا؟

اللہ کے رسولﷺنے پھر فرمایا: 
’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟‘‘ اوروہ جواباً عرض گزار ہوئے کہ اللہ کے رسول! بھلا مجھ سے شادی کون کرے گا؟ نہ مال نہ جاہ و جلال!!
اللہ کے رسولﷺنے تیسری مرتبہ بھی ارشاد فرمایا: ’’جُلیبیب تم شادی نہیں کرو گے؟ جواب میں انہوں نے پھر وہی کہا: اللہ کے رسول! مجھ سے شادی کون کرے گا؟ کوئی منصب نہیں میری شکل بھی اچھی نہیں، نہ میرا خاندان بڑا ہے اورنہ مال و دولت رکھتا ہوں۔

اللہ کے رسولﷺنے ارشاد فرمایا:
’اِذْھَبْ إِلَی ذَاکَ الْبَیْتِ مِنَ الأَْنْصَارِ وَقُل لَّھُم: رَسُولُ اللّٰہِﷺ یُبْلِّغُکُمُ السَّلَامَ وَیَقُولُ: زوِّجُونِي ابْنَتَکُمْ۔‘
’’فلاں انصاری کے گھرجاو اور ان سے کہو کہ اللہ کے رسول تمھیں سلام کہہ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ اپنی بیٹی سے میری شادی کردو۔‘‘

جُلیبیب خوشی خوشی اس انصاری کے گھر گئے اور دروازے پر دستک دی گھر والوں نے پوچھا کون؟
کہا: جُلیبیب۔
گھرکا مالک باہر نکلا جُلییب کھڑے تھے
پوچھا: کیا چاہتے ہو، کدھر سے آئے ہو؟
کہا: اللہ کے رسول نے تمھیں سلام بھجوایا ہے۔

یہ سننے کی دیر تھی کہ گھر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ اللہ کے رسول نے ہمیں سلام کا پیغام بھجوایا ہے۔ ارے! یہ تو بہت ہی خوش بختی کا مقام ہے کہ ہمیں اللہ کے رسول نے سلام کہلا بھیجا ہے۔

جُلیبیب کہنے لگے: آگے بھی سنو! اللہ کے رسولﷺنے تمہیں حکم دیا ہے کہ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کردو۔

صاحب خانہ نے کہا: ذرا انتظار کرو، میں لڑکی کی ماں سے مشورہ کرلوں۔ اندرجاکر لڑکی کی ماں کو پیغام پہنچایا اور مشورہ پوچھا؟ 
وہ کہنے لگی: نا 'نا، نا 'نا… قسم اللہ کی! میں اپنی بیٹی کی شادی ایسے شخص سے نہیں کروں گی، نہ خاندان، نہ شہرت، نہ مال و دولت، ان کی نیک سیرت بیٹی بھی گھر میں ہونے والی گفتگو سن رہی تھی اور جان گئی تھی کہ حکم کس کا ہے؟ کس نے مشورہ دیا ہے؟ سوچنے لگی اگر اللہ کے رسول اس رشتہ داری پرراضی ہیں تو اس میں یقینا میرے لیے بھلائی اور فائدہ ہے۔
اس نے والدین کی طرف دیکھا اور مخاطب ہوئی:

’أَتَرُدُّونَ عَلٰی رَسُولِ اللّٰہِﷺ أَمْرَہٗ؟ ادْفَعُونِی إِلٰی رَسُولِ اللّٰہِ’ﷺ فَإِنَّہُ لَنْ یُضَیِّعَنِی‘۔

’’کیا آپ لوگ اللہ کے رسول کا حکم ٹالنے کی کوشش میں ہیں؟ مجھے اللہ کے رسول کے سپرد کردیں(وہ اپنی مرضی کے مطابق جہاں چاہیں میری شادی کردیں) کیونکہ وہ ہر گزمجھے ضائع نہیں ہونے دیں گے۔‘‘

پھر لڑکی نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تلاوت کی:
اور دیکھو! کسی مومن مرد وعورت کو اللہ اوراس کے رسول کے فیصلے کے بعد اپنے امور میں کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔‘‘(الأحزاب33: 36)

لڑکی کا والد اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہوا اورعرض کی: اللہ کے رسول! آپ کا حکم سر آنکھوں پر آپ کا مشورہ، آپ کا حکم قبول، میں شادی کے لیے راضی ہوں۔ جب رسول اکرم کو اس لڑکی کے پاکیزہ جواب کی خبر ہوئی تو آپ نے اس کے حق میں یہ دعا فرمائی:

’اللَّھُمَّ صُبَّ الخَیْرَ عَلَیْھَا صُبًّا وَلَا تَجْعَلْ عَیْشَھَا کَدًّا۔‘
’’اے اللہ! اس بچی پر خیر اور بھلائی کے دروازے کھول دے اوراس کی زندگی کو مشقت و پریشانی سے دور رکھ۔‘‘
(موارد الظمآن: 2269، و مسند أحمد: 425/4، ومجمع الزوائد: 370/9وغیرہ)

پھر جُلیبیب کے ساتھ اس کی شادی ہوگئی۔ مدینہ منورہ میں ایک اور گھرانہ آباد ہو گیا جس کی بنیاد تقویٰ اور پرہیز گاری پر تھی، جس کی چھت مسکنت اور محتاجی تھی، جس کی آرائش و زیبائش تکبیر و تہلیل اور تسبیح و تحمید تھی۔ اس مبارک جوڑے کی راحت نماز اور دل کا اطمینان تپتی دوپہروں کے نفلی روزوں میں تھا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت سے یہ شادی خانہ آبادی بڑی ہی برکت والی ثابت ہوئی۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان کے مالی حالات اس قدر اچھے ہوگئے کہ راوی کا بیان ہے:

’فَکَانَتْ مِنْ أَکْثَرِ الأَْنْصَارِ نَفَقَۃً وَّمَالًا‘
’’انصاری گھرانوں کی عورتوں میں سب سے خرچیلا گھرانہ اسی لڑکی کا تھا۔‘‘

ایک جنگ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا:

’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘
’’دیکھو! تمھارا کوئی ساتھی بچھڑ تو نہیں گیا؟‘‘

مطلب یہ تھا کہ کون کون شہید ہو گیا ہے؟
صحابہ نے عرض کیا: ہاں، فلاں فلاں حضرات موجود نہیں ہیں ...

پھر ارشاد ہوا:
’ھَلْ تَفْقِدُونَ مِنْ أَحَدٍ؟‘
’’کیا تم کسی اور کو گم پاتے ہو؟‘‘

صحابہ نے عرض کیا: نہیں۔

آپ نے فرمایا:
’لٰکِنِّي أَفْقِدُ جُلَیْبِیبًا فَاطْلُبُوہُ‘
’’لیکن مجھے جُلیبیب نظر نہیں آرہا، اس کو تلاش کرو۔‘‘

چنانچہ ان کو میدان جنگ میں تلاش کیا گیا۔
وہ منظر بڑا عجیب تھا۔ میدان جنگ میں ان کے ارد گرد سات کافروں کی لاشیں تھیں گویا وہ ان ساتوں سے لڑتے رہے اور پھر ساتوں کو جہنم رسید کرکے شہید ہوئے اللہ کے رسول کو خبر دی گئی۔ رؤف و رحیم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اپنے پیارے ساتھی کی لاش کے پاس کھڑے ہوئے۔ منظر کو دیکھا۔ پھر فرمایا : 

’قَتَلَ سَبْعَۃً ثُمَّ قَتَلُوہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ، ھَذَا مِنِّي وَأَنَا مِنْہُ۔‘
’’اس نے سات کافروں کو قتل کیا، پھر دشمنوں نے اسے قتل کردیا۔ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ۔‘‘

’فَوَضَعَہُ عَلَی سَاعِدَیْہِ لَیْسَ لَہُ إِلَّا سَاعِدَا النَّبِيَّ ﷺ‘۔
’’پھر آپ نے اپنے پیارے ساتھی کو اپنے ہاتھوں میں اٹھایا اور شان یہ تھی کہ اکیلے ہی اس کو اٹھایا ہوا تھا۔ صرف آپ کو دونوں بازوئوں کا سہارا  میسر تھا۔‘‘

جُلیبیب رضی اللہ عنہ کے لیے قبر کھودی گئی، پھر نبیﷺنے اپنے دست مبارک سے انھیں قبر میں رکھا۔

                                                                     [صحیح مسلم: 2472]

Read More >>

Wednesday, 7 February 2018


نبی کریم ﷺ بطور مثالی شوہر


نبی کریمﷺ بحیثیت مثالی شوہر


وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا۝۱۹   [سورۃالنساء  ٤: ۱۹] 
(اپنی بیویوں سے) اچھے طریقے سے بودوباش رکھو، گو تم انہیں ناپسند کرو لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو، اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کر دے۔

ازواج مطہرات:  

۱:  خد یجہ  بنتِ خُویلد رضی اللہ عنھا
۲:  عائشہ  بنتِ ابی بکر   رضی اللہ عنھا
۳:  حفصہ بنت عمر   رضی اللہ عنھا
۴:   سودہٗ بنت زمعۃ   رضی اللہ عنھا
۵:  زینب بنت جعش   رضی اللہ عنھا
۶:  زینب بنت خزیمہ   رضی اللہ عنھا
۷:  ا م سلمہ ہندبنت ابی اُمیّہ   رضی اللہ عنھا
۸:   ام حبیبہ رملہ بنت ابی سفیان   رضی اللہ عنھا
۹:  میمونہ بنت الحارث بن حزن   رضی اللہ عنھا
۱۰:  جویریہ بنت الحارث بن ابی ضرار   رضی اللہ عنھا ‘  ان کا نام  ’’  بَر ۃ  ‘‘  تھا  ۔
۱۱:  صفیہ بنت حُیی   رضی اللہ عنھا
وفات کے وقت 9 ازواج مطہرات موجود تھیں۔
دو ازواج، حضرت خدیجہ اور زینب بنت خزیمہ پہلے فوت ہوئیں۔

خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ :

تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو:
بہترین کون ؟ 
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏    ((خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لِأَهْلِهِ، ‏‏‏‏‏‏وَأَنَا خَيْرُكُمْ لِأَهْلِي،‏‏‏‏ وَإِذَا مَاتَ صَاحِبُكُمْ فَدَعُوهُ   )).  [سنن الترمذی: 3895،  صحیح الجامع: 3314]
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہو اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں اور جب تم میں سے کوئی مر جائے تو اسے خیر باد کہہ دو، یعنی اس کی برائیوں کا ذکرنہ کرو“ 

*ہمارے معاشرے کی ابتر صورت حال (سعودی عرب میں شرح طلاق 21% تک پہنچ چکی ہے۔)

1۔ روزانہ کچھ وقت دیتے، سلام کہتے ، دُعا دیتے اور اظہار محبت کرتے

صبح کا معمول:

ابن عباس رضی اللہ عنہ کان إذا صلّی الصبح جَلَسَ فی مُصَلَّا ثم یدخُل علی نسآئہ امرءۃً امرءۃً، یُسَلّم علیھن ویدعولھن۔۔۔۔۔ [الطبرانی، الأوسط، 8764، سکت عنہ الحافظ]

پچھلے پہر(شام ) کا معمول:

عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا انصرف من العصر دخل على نسائه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فيدنو من إحداهن ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فدخل على حفصة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فاحتبس أكثر ما كان يحتبس‏.
ام المومنینعائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز سے فارغ ہو کر اپنی ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے اور ان میں سے ہر ایک کے قریب بھی بیٹھتے ۔ ایک دن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گئے اور معمول سے زیادہ کافی دیر تک ٹھہرے رہے ۔
[صحیح بخاری: 5216]
خلاصہ: صبح صرف سلام، دُعاکرتے، خیریت دریافت فرماتے، محبت فرماتے۔۔۔۔
شام نشست فرماتے،قریب ہو کر بیٹھتے، گفتگو کرتے، محبت فرماتے۔۔۔۔۔

اکثر معمول:

عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَتْ عَائِشَةُ:‏‏‏‏   يَا ابْنَ أُخْتِي، ‏‏‏‏‏‏كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُفَضِّلُ بَعْضَنَا عَلَى بَعْضٍ فِي الْقَسْمِ مِنْ مُكْثِهِ عِنْدَنَا، ‏‏‏‏‏‏وَكَانَ قَلَّ يَوْمٌ إِلَّا وَهُوَ يَطُوفُ عَلَيْنَا جَمِيعًا، ‏‏‏‏‏‏فَيَدْنُو مِنْ كُلِّ امْرَأَةٍ مِنْ غَيْرِ مَسِيسٍ حَتَّى يَبْلُغَ إِلَى الَّتِي هُوَ يَوْمُهَا فَيَبِيتَ عِنْدَهَا، ‏‏‏‏‏‏وَلَقَدْ قَالَتْ سَوْدَةُ بِنْتُ زَمْعَةَ حِينَ أَسَنَّتْ وَفَرِقَتْ أَنْ يُفَارِقَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ‏‏‏‏‏‏يَوْمِي لِعَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏فَقَبِلَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا، ‏‏‏‏‏‏قَالَتْ:‏‏‏‏ نَقُولُ فِي ذَلِكَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى، ‏‏‏‏‏‏وَفِي أَشْبَاهِهَا أُرَاهُ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ وَإِنِ امْرَأَةٌ خَافَتْ مِنْ بَعْلِهَا نُشُوزًا سورة النساء آية 128  .  [سنن ابی داؤد: 2135]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم ازواج مطہرات کے پاس رہنے کی باری میں بعض کو بعض پر فضیلت نہیں دیتے تھے اور ایسا کم ہی ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب کے پاس نہ آتے ہوں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب کے قریب ہوتے، محبت کا اظہارفرماتےہاں جماع نہ کرتے، اس طرح آپ اپنی اس بیوی کے پاس پہنچ جاتے جس کی باری ہوتی اور اس کے پاس رات گزارتے، اور سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہا عمر رسیدہ ہو گئیں اور انہیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں الگ کر دیں گے تو کہنے لگیں: اللہ کے رسول! میری باری عائشہ رضی اللہ عنہا کے لیے رہے گی، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات قبول فرما لی، عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ ہم کہتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی سلسلہ میں  اور اسی جیسی چیزوں کے سلسلے میں آیت کریمہ: «وإن امرأة خافت من بعلها نشوزا» (سورۃ النساء: ۱۲۸)  نازل کی:  اگر عورت کو اپنے خاوند کی بدمزاجی کا خوف ہو ۔

۔آج کے مصروف دور میں اس پر عمل کی صورت

۔ ایک فون کال، SMS، شیرنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2۔ تہجد کے وقت بات چیت فرمالیتے

عن عائشة رضى الله عنها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا صلى ‏ {‏ سنة الفجر‏}‏ فإن كنت مستيقظة حدثني وإلا اضطجع حتى يؤذن بالصلاة‏. [صحیح البخاری: 1161]

ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی سنتیں پڑھ لیتےتو اگر میں جاگتی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے باتیں کرتے ورنہ لیٹ جاتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کو نماز کی اطلاع دی جاتی ۔

3۔ حق زوجیت ادا فرماتے

عن أنس بن مالك ،‏‏‏‏ قال :كان النبي صلى الله عليه وسلم يدور على نسائه في الساعة الواحدة من الليل والنهار ،‏‏‏‏ وهن إحدى عشرة‏.‏ قال: قلت لأنس: أوكان يطيقه ؟قال :كنا نتحدث أنه أعطي قوة ثلاثين‏.‏ 
سیدنا انس بن مالک نےفرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن اور رات کے ایک ہی وقت میں اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس جایا کرتے اور وہ گیارہ تھیں ۔ ( نو منکوحہ اور دو لونڈیاں ) راوی نے کہا ، میں نے انس سے پوچھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طاقت رکھتے تھے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم آپس میں کہا کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیس مردوں کے برابر طاقت دی گئی ہے 

[صحیح البخاری: 268، صحیح مسلم: 309]

4۔ سفر میں ساتھ لے جاتے

عن عائشة ‏‏‏‏ ‏‏‏‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج أقرع بين نسائه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فطارت القرعة لعائشة وحفصة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا كان بالليل سار مع عائشة يتحدث ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالت حفصة ألا تركبين الليلة بعيري وأركب بعيرك تنظرين وأنظر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقالت بلى فركبت فجاء النبي صلى الله عليه وسلم إلى جمل عائشة وعليه حفصة فسلم عليها ثم سار حتى نزلوا وافتقدته عائشة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فلما نزلوا جعلت رجليها بين الإذخر وتقول يا رب سلط على عقربا أو حية تلدغني ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا أستطيع أن أقول له شيئا
ام المومنین  عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم  ﷺ  جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی ازواج کے لئے قرعہ ڈالتے ۔ ایک مرتبہ قرعہ عائشہ اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے نام نکلا ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت معمولاً چلتے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے چلتے ۔ ایک مرتبہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے ان سے کہا کہ آج رات کیوں نہ تم میرے اونٹ پر سوار ہو جاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر تاکہ تم بھی نئے مناظر دیکھ سکو اور میں بھی ۔ انہوں نے یہ تجویز قبول کر لی اور ( ہر ایک دوسرے کے اونٹ پر ) سوار ہو گئیں ۔ اس کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عائشہ کے اونٹ کے پاس تشریف لائے ۔ اس وقت اس پر حفصہ رضی اللہ عنہا بیٹھی ہوئی تھیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا ، پھر چلتے رہے ، جب پڑاؤ ہوا تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس میں نہیں ہیں ( اس غلطی پر عائشہ کو اس درجہ رنج ہوا کہ ) جب لوگ سواریوں سے اتر گئے تو ام المؤمنین نے اپنے پاؤں اذخر گھاس میں ڈال لئے اور دعا کرنے لگی کہ اے میرے رب ! مجھ پر کوئی بچھو یا سانپ مسلط کر دے جو مجھ کو ڈس لے ۔ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تو کچھ کہہ نہیں سکتی تھی( کیونکہ یہ حرکت خود میری ہی تھی )۔ [صحیح بخاری: 5211، صحیح مسلم: 2445]

5۔ کھیل ،  تفریح،  فزیکل مقابلہ:

بیوی کے ساتھ دوڑ کا منفرد انداز

6۔ انتہائی وفادار، سابقہ تعلق کو یاد رکھنے والے:

عن عائشة  رضى الله عنها  قالت ما غرت على أحد من نساء النبي صلى الله عليه وسلم ما غرت على خديجة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وما رأيتها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولكن كان النبي صلى الله عليه وسلم يكثر ذكرها ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وربما ذبح الشاة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم يقطعها أعضاء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ثم يبعثها في صدائق خديجة ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فربما قلت له كأنه لم يكن في الدنيا امرأة إلا خديجة‏.‏ فيقول إنها كانت وكانت ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وكان لي منها ولد‏.
  ام المؤمنینعائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوںمیںجتنی غیرت مجھے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے آتی تھی اتنی کسی اور سے نہیں آتی تھی ، حالانکہ انہیں میں نے دیکھابھی نہیں تھا ، اس کی وجہ یہ تھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کاذکربکثرت فرمایاکرتے تھے اور اگر کوئی بکری ذبح کرتے تو اس کےحصےکر کے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی سہیلیوںکو بھیجتے تھے میں نے کئی بارحضور ﷺسے کہا : جیسے دنیا میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے سوا کوئی عورت ہے ہی نہیں ! ؟  اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ وہ ایسی تھیں اوروہ ایسی تھیں اور اسی سے میری اولاد ہے  نا ۔
[صحیح بخاری: 3818]
2۔ عائشہ کان رسول اللہﷺ إذا ذکر خدیجۃ لم یکن یَسْأم من ثناء علیھا، والاستغفار لَھَا۔
[الطبرانی الکبیر:16 / 319، حسنہ]

i۔ ذکرِخیر،  تعریف   ۔
ii۔ اولاد کا تعلق  ۔
iii۔ دعائے مغفرت  ۔
بعض لوگوں کا رویہ۔۔۔۔۔۔۔ مرحومہ کی غیبت۔۔۔۔۔۔ موجودہ کی تعریف


7۔ بیوی کی تعلق دار خواتین سے حسن سلوک

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ اسْتَأْذَنَتْ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ أُخْتُ خَدِيجَةَ عَلَی رَسُولِ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَرَفَ اسْتِئْذَانَ خَدِيجَةَ فَارْتَاحَ لِذَلِکَ فَقَالَ: ۰(( اللَّهُمَّ هَالَةُ بِنْتُ خُوَيْلِدٍ  ! ؟)) فَغِرْتُ فَقُلْتُ وَمَا تَذْکُرُ مِنْ عَجُوزٍ مِنْ عَجَائِزِ قُرَيْشٍ حَمْرَائِ الشِّدْقَيْنِ هَلَکَتْ فِي الدَّهْرِ فَأَبْدَلَکَ اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا !؟ 
ام المؤمنینسیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت خدیجہ کی بہن حضرت ہالہ بنت خویلد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آنے کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت خدیجہ کا اجازت مانگنا یاد آ گیا تو آپ اس کی وجہ سے خوش ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ یہ تو ہالہ بنت خویلد ہیں مجھے یہ دیکھ کر رشک آ گیا میں نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم قریش کی بوڑھی عورتوں میں سے ایک بھاری گا لوں والی عورت کو یاد کرتے رہتے ہو،  ایک لمبی مدت ہوئی وہ انتقال کر چکیں تو اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان سے بہتر بدل عطا فرمایا !؟ ۔
[صحیح مسلم: 2436]
عن انس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اذھبوا بہ إلی فلانۃ۔۔۔۔۔۔
[الادب المفرد : 232]

۔بعض لوگوں کا مذموم رویہ ۔۔۔۔ بیویوں کی سہیلیوںں بلکہ بھائیوں، بہنوں اور والدین سے بدسلوک

8۔ نئی شادی پر آپﷺ کے گھرانے کا منفرد ماحول:

1۔ قال أنس بن مالك أنا أعلم الناس  بهذه الآية   آية الحجاب ،‏‏‏‏ لما أهديت زينب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم كانت معه في البيت ،‏‏‏‏ صنع طعاما ،‏‏‏‏ ودعا القوم ،‏‏‏‏ فقعدوا يتحدثون ،‏‏‏‏ فجعل النبي صلى الله عليه وسلم يخرج ،‏‏‏‏ ثم يرجع ،‏‏‏‏ وهم قعود يتحدثون ،‏‏‏‏ فأنزل الله تعالى ‏ {‏ يا أيها الذين آمنوا لا تدخلوا بيوت النبي إلا أن يؤذن لكم إلى طعام غير ناظرين إناه‏}‏ إلى قوله ‏ {‏ من وراء حجاب‏}‏ فضرب الحجاب ،‏‏‏‏ وقام القوم
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس آیت یعنی حجاب، پردہ والی آیت  ( کے شان نزول ) کے متعلق میں سب سے زیادہ جانتا ہوں ، جب سیدہ زینب رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کیا اور وہ آپ کے ساتھ آپ کے گھر ہی میں تھیں تو آپ نے کھانا( ولیمہ ) تیار کروایااور قوم کو بلایا ( کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ) لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باہر جاتے اور پھر اندر آتے ( تاکہ لوگ اٹھ جائیں ) لیکن لوگ بیٹھے باتیں کرتے رہے ۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ۔ کہ ” اے ایمان والو ! نبی کے گھروں میں مت جایا کرو ۔ سوائے اس وقت کے جب تمہیں ( کھانے کے لئے ) آنے کی اجازت دی جائے ۔ ایسے طور پر کہ اس کی تیاری کے منتظر نہ رہو “ ۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ” من وراء حجاب “ تک،  اس کے بعد پردہ ڈال دیا گیا اور لوگ کھڑے ہو گئے ۔
[صحیح البخاری: 4792]
2۔ ہر ہر گھر میں سلام ’’جعل یمرعلی نسائہ‘‘
[صحیح مسلم: 1428]
۔ دوسری شادی کے موقع پر سابقہ بیوی کا خیال
۔ پہلی بیوی کا طرز عمل اور حسن سلوک
۔ گھر میں سلام
۔ خیریت دریافت کرنا

9۔ بیوی سے محبت کا اظہار فرماتے

۔۔
[صحیح مسلم: 2435]
2۔  عن عمرو بن العاص ـ رضى الله عنه ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم بعثه على جيش ذات السلاسل ،‏‏‏‏ فأتيته فقلت:أى الناس أحب إليك؟  قال: ‏"‏ عائشة ‏"‏‏.‏ فقلت  : من الرجال؟   فقال ‏:"‏ أبوها ‏"‏‏.‏ قلت :  ثم من ؟  قال ‏:"‏ ثم عمر بن الخطاب ‏"‏‏.‏ فعد رجالا۔
سیدنا عمروبن عاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غزوہ ذات السلاسل کے لیے بھیجا ( عمرو رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ) پھر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے پوچھا کہ سب سے زیادہ محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس سے ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) سے میں نے پوچھا ، اور مردوں میں ؟ فرمایا کہ اس کے باپ سے ، میں نے پوچھا ، اس کے بعد ؟ فرمایا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی آدمیوں کے نام لیے ۔ [صحیح بخاری: 3662]
۔ نام لے کر محبت کا اظہار کرنا چاہیئے
۔ کھل کر بتانا چاہیئے
۔ محبت کا اظہار نہ کرنا عورت کی بے راہ روی کا سبب
۔خاوند کی بے رخی اور اغیار کی چالاکی

10۔ گھر سے الوداع ہوتے ہوئے اظہار محبت

1۔ -عن عائشة أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللَّهُ عليهِ وسلَّمَ قبَّلَ بَعضَ نسائِهِ ، ثمَّ خرجَ إلى الصَّلاةِ ولم يتَوضَّأ ، قالَ : قلتُ : مَن هيَ إلَّا أنتِ ؟ قالَ : فضحِكَتْ۔
[سنن الترمذی: 79، سنن ابی داؤد: 178]

2۔  عن عائشة  رضى الله عنها  قالت :كان النبي صلى الله عليه وسلم يقبل ويباشر ،‏‏‏‏ وهو صائم ،‏‏‏‏ وكان أملككم لإربه‏.‏ 
ام المؤمنین سیدہعائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ سے ہوتے لیکن ( اپنی ازواج کے ساتھ )   بوس و کنار اور مباشرت ( اپنے جسم سے لگا لینا ) کر لیتے تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم سب سے زیادہ اپنی خواہشات پر قابو رکھنے والے تھے ۔

11۔ بیوی کی کھانے پینے والی چھوڑی ہوئی اشیاء کا محبت بھرا استعمال

-عن عائشۃ رضی اللہ عنہ قالت: كنتُ أشربُ وأنا حائضٌ ، ثم أُنَاوِلُه النبيَّ- صلى الله عليه وسلم ،فيَضَعُ فاه على موضِعِ فيَّ، فيشرب، وأَتَعَرَّقُ العَرَقَ وأنا حائضٌ ، ثم أُنَاوِلُه النبيَّ صلى الله عليه وسلم ، فيَضَعُ فاه على مَوضِعِ فيَّ . 
[صحیح مسلم: 300]
۔عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ حتى إذا كنا بالبيداء أو بذات الجيش انقطع عقد لي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وأقام الناس معه ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليسوا على ماء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليس معهم ماء فأتى الناس إلى أبي بكر الصديق فقالوا ألا ترى ما صنعت عائشة أقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم وبالناس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليسوا على ماء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليس معهم ماء؟  فجاء أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع رأسه على فخذي قد نام ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقال حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليسوا على ماء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وليس معهم ماء قالت عائشة فعاتبني أبو بكر ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وقال ما شاء الله أن يقول ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ وجعل يطعنني بيده في خاصرتي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ولا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حین أصبح على غير ماء ،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ فأنزل الله آية التيمم فقال أسيد بن حضير ما هي بأول بركتكم يا آل أبي بكر‏.‏ قالت فبعثنا البعير الذي كنت عليه فإذا العقد تحته‏.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ایک سفر میں ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے ۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش مقام تک پہنچے تو میرا ہار گم ہو گیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تلاش کر وانے کے لیے وہیں قیام کیا اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قیام کیا ۔ وہاں کہیں پانی نہیں تھا اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے ساتھ بھی پانی نہیں تھا ۔ لوگ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : ملاحظہ نہیں فرماتے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کر رکھا ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہیں ٹھہرا لیا اور لوگوںکو بھی ، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے پاس پانی ہے ؟  سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ ( میرے یہاں ) آئے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سرمبارک میری ران پر رکھ کرسو ئے ہوئےتھے، کہنے لگے :  تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب کو روک لیا ، حالانکہ یہاں کہیں پانی نہیں ہے اور نہ کسی کے ساتھ پانی ہے  !؟  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ مجھ پر بہت خفا ہوئے اور جو اللہ کو منظور تھا مجھے کہا  اور ہاتھ سے میری کو کھ میں کچوکے لگائے ۔ میں نے صرف اس خیال سے کوئی حرکت نہیں کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری ران پر اپنا سر رکھے ہوئے تھے ، پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم صبح کو بیدار ہوئے، کہیں پانی کا نام و نشان نہ تھا ، پھر اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل کی تو اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آل ابی بکر ! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے ۔  ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرناتی ہیں : پھر ہم نے وہ اونٹ اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچےسے مل گیا ۔ [صحیح البخاری: 4607]

12۔ مخصوص ایام میں بھی اظہار محبت:

۔ مخصوص ایام میں بالکل قطع تعلقی یہودی رویہ
۔ مخصوص ایام میں جماع گندگی اور ناپاکی کا مظہر
۔راہ اعتدال ۔۔۔۔۔ سنت نبوی۔۔۔۔
۔ مخصوص ایام میں عورت کی نفسیاتی کیفیت اور پیچیدگیاں
۔مخصوص ایام میں طلاق کی ممانعت

13۔ خوبصورت نام سے بلانا:

عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها ‏"‏ يا عائشة ،‏‏‏‏ هذا جبريل يقرأ عليك السلام ‏"‏‏.‏ فقالت وعليه السلام ورحمة الله وبركاته‏.‏ ترى ما لا أرى‏.‏ تريد النبي صلى الله عليه وسلم‏.
ام المؤمنین سیدہعائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ فرمایا ” اے عائشہ ! یہ جبرائیل علیہ السلام آئے ہیں ، تم کو سلام کہہ رہے ہیں ۔ ‘ ‘ عائشہ رضی اللہ عنہا نے جواب میں کہا :’’ وعلیہ السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  ‘‘  آپ وہ چیزیں دیکھتے ہیں جنہیں میں نہیں دیکھ سکتی ، عائشہ رضی اللہ عنہا کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  تھے۔ [صحیح بخاری: 3217]
۔عن عائشۃ قالت دخل الحبشۃ المسجد یلعنون، فقال لی النبیﷺ یا حمیرا، أتحسبین ان تنظری إلیھم؟ فقلت: نعم۔
[النسائی، الکبریٰ: 8951، الصحیحۃ: 3277]
۔ عن  عائشۃ لما ولد عبداسللہ بن الزبیر أتیت بہ النبیﷺ فتفل فی فیہ، فکان أول شئ دخل جوفہ وقال: ھو عبداللہ وأنت ام عبداللہ فما زلتُ أکنّٰی بھا وما ولدت قطُّ۔ 
[ابن حبان، 7117، قال الارنؤوط إسنادہ قوِیٌّ]
۔ہمارا رویہ مختلف  نام بگاڑ کر رکھنا
14۔ راہ اعتدال ضروری ہے
1۔ دیگر اقارب کی حق تلفی نہ ہو، والدین کے حقوق
2۔ دینی معاملات میں بیوی کی تربیت، آخرت کی فکر
3۔ غیر شرعی معاملات میں اصول پر پابندی
تعارف قلتِ کلمۃ۔۔۔۔۔
15۔ جامع دعا
رَبَّنَا ہَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْيُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ اِمَامًا۝۷۴ 
اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا ۔ [الفرقان  ٢٥:٧٤]





Fehm e Seerat | Day3 | Misali Shohar | Professor Ubaid ur Rehman Mohsin | Ellahabad | 28-11-17



Read More >>

Tuesday, 6 February 2018


رسول اللہ ﷺ کا اخلاق


حاجتنا إلى حسن الخلق

ترتیب: پروفیسر ڈاکٹر عبیدالرحمن محسن حفظہ اللہ

الحمد لله، وأشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، وأشهد أن محمدًا عبده ورسوله - صلى الله عليه وآله وسلم.

 1) الأسوة الحسنة - صلى الله عليه وسلم - أحسن الناس خُلقًا:

قال - تعالى -: ﴿ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴾ [الأحزاب: 21].
  وقال - تعالى - مادحًا نبيَّه - صلى الله عليه وسلم -: ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾ [القلم: 4].
وعن قتادة قال لعائشة - رضي الله عنها -: يا أم المؤمنين، أنبئيني عن خُلق رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قالت: ألستَ تقرأ القرآن؟ قلت: بلى، قالت: "فإن خلق نبي الله كان القرآنَ"[1].
وعن أنس قال: "كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - أحسن الناس خلقًا"[2].
  ويقول العلامة السعدي - رحمه الله - في تفسيره: "وقوله - تعالى - ﴿ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴾ [القلم: 4]؛ أي: عاليًا به، مستعليًا بخُلقِك الذي منَّ الله عليك به، وحاصل خُلقِه العظيم ما فسَّرتْه به أم المؤمنين عائشة - رضي الله عنها - لمن سألها عنه، فقالت: "كان خلقه القرآنَ"، وذلك نحو قوله - تعالى - له: ﴿ خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ ﴾ [الأعراف: 199]، ﴿ فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ﴾ [آل عمران: 159]، ﴿ لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُوفٌ رَحِيمٌ ﴾ [التوبة: 128]، وما أشبه ذلك من الآيات الدالات على اتصافه - صلى الله عليه وسلم - بمكارم الأخلاق، والآيات الحاثَّات على الخلق العظيم؛ فكان له منها أكملها وأجلُّها، وهو في كل خصلة منها في الذروة العليا، فكان - صلى الله عليه وسلم - سهلاً لينًا، قريبًا من الناس، مجيبًا لدعوة مَن دعاه، قاضيًا لحاجة مَن استقضاه، جابرًا لقلب مَن سأله، لا يحرمه ولا يردُّه خائبًا، وإذا أراد أصحابه منه أمرًا وافقهم عليه، وتابعهم فيه إذا لم يكن فيه محذور، وإن عزم على أمر لم يستبدَّ به دونهم، بل يشاورهم ويؤامرهم، وكان يقبل من مُحسنهم، ويعفو عن مسيئهم، ولم يكن يعاشر جليسًا له إلا أتمَّ عشرةٍ وأحسنَها، فكان لا يعبس في وجهه، ولا يغلظ عليه في مقاله، ولا يطوي عنه بشره، ولا يمسك عليه فلتات لسانه، ولا يؤاخذه بما يصدر منه من جفوة، بل يحسن إلى عشيره غايةَ الإحسان، ويحتمله غاية الاحتمال - صلى الله عليه وسلم"[3].
  وكما ثبت في الصحيحين عن أنس قال: "خدمتُ النبي - صلى الله عليه وسلم - عشر سنين، فما قال لي: أفٍّ قط، وما قال لشيء صنعتُه: لِمَ صنعتَه؟ ولا لشيء تركتُه: لِمَ تركتَه؟ وكان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من أحسن الناس خلقًا"[4].
  وعن أنس بن مالك - رضي الله عنه - قال: لم يكن النبي - صلى الله عليه وسلم - سبَّابًا، ولا فحاشًا، ولا لعانًا، كان يقول لأحدنا عند المعتبة: ((ما له ترب جبينه؟))[5].
  وعن عائشة قالتْ: ما ضرب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - شيئًا قط بيده، ولا امرأةً، ولا خادمًا، إلا أن يجاهد في سبيل الله، وما نِيلَ منه شيءٌ قط فينتقم من صاحبه، إلا أن يُنتَهك شيء من محارم الله، فينتقم لله - عز وجل[6].

 2) مبعثه - صلى الله عليه وسلم - ليتممَ صالح الأخلاق ومكارمها:

عن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال: "لما بلغ أبا ذرٍّ مبعثُ النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لأخيه: اركبْ إلى هذا الوادي، فاعلم لي علمَ هذا الرجلِ الذي يزعم أنه نبي يأتيه الخبر من السماء، واسمعْ من قوله، ثم ائتِني، فانطلق الأخ حتى قدمه وسمع من قوله، ثم رجع إلى أبي ذر، فقال له: رأيته يأمر بمكارم الأخلاق، وكلامًا ما هو بالشعر..."؛ الحديث[7].
وعن أبي هريرة، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((إنما بُعِثت لأتمم صالح الأخلاق))[8].
  وفي قوله - تعالى -: ﴿ كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِنْكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُمْ مَا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ ﴾ [البقرة: 151].
يقول الإمام ابن كثير - رحمه الله - في تفسيره: "يذكِّر - تعالى - عبادَه المؤمنين ما أنعم به عليهم من بعثة الرسول محمد - صلى الله عليه وسلم - إليهم، يتلو عليهم آياتِ الله مبيِّنات ويزكِّيهم؛ أي: يطهِّرهم من رذائل الأخلاق، ودنس النفوس، وأفعال الجاهلية، ويُخرِجهم من الظلمات إلى النور، ويعلِّمهم الكتابَ، وهو القرآن، والحكمةَ، وهي السنة، ويعلمهم ما لم يكونوا يعلمون؛ فكانوا في الجاهلية الجَهْلاء يسفهون بالقول الفرَى، فانتقلوا ببركة رسالته ويُمْن سفارته إلى حال الأولياء، وسجايا العلماء؛ فصاروا أعمق الناس علمًا، وأبرهم قلوبًا، وأقلهم تكلفًا، وأصدقهم لهجة، وقال - تعالى -: ﴿ لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنْ أَنْفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ ﴾ [آل عمران: 164].

 3) محبة الله - تعالى - لمعالي الأخلاق وأحسن عباده خلقًا:

عن عامر بن سعد عن أبيه - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((إن الله تعالى كريم يحب الكرماء، جواد يحب الجودة[9]، ويحب معالي الأخلاق، ويكره سفسافها[10]))[11].
  وعن ابن عباس - رضي الله عنهما - قال: قال رسول الله: ((إن الله - عز وجل - جَوَاد يحب الجُود، ويحب معالي الأخلاق ويُبغِض سفسافها))[12].
  وعن أسامة بن شريك قالوا: فأيُّ الناس أحب إلى الله، يا رسول الله؟ قال: ((أحب عباد الله إلى الله، أحسنهم خلقًا))[13].
إذا أحب الله العبد حبب الناس فيه، قال صلى الله عليه وسلم :" إذا أحب الله عبدا نادى جبريل إني أحب فلانا فأحبه ، فيحبه جبريل ، ثم ينادي جبريل أهل السماء إن الله يحب فلانا فأحبوه ، فيحبه أهل السماء ثم يوضع القبول له في الأرض" .  رواه البخاري (56933)

 4) حب رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لمن حَسُن خلقُه، وقربُه منه يوم القيامة:

عن عبدالله بن عمرو قال: إن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لم يكن فاحشًا ولا متفحشًا، وقال: ((إن من أحبكم إليَّ أحسنكم أخلاقًا))[14]، وفي رواية: "وإنه كان يقول: ((إن خياركم أحاسنكم أخلاقًا))[15].
  وعن أبي ثعلبة الخشني، قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((إن أحبكم إليَّ وأقربكم مني في الآخرة، محاسنكم أخلاقًا، وإن أبغضكم إليَّ وأبعدكم مني في الآخرة، مساوئكم أخلاقًا، الثرثارون، المُتَفَيهِقون، المتشدِّقون))[16].

 5) حسن الخلق أثقل شيء في ميزان العبد يوم القيامة:

عن أبي الدرداء - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: ((ما من شيء أثقل في الميزان من حسن الخلق))[17]، وعنه - رضي الله عنه - عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: ((مَن أُعطي حظَّه من الرفق، فقد أُعطي حظه من الخير، ومَن حُرِم حظَّه من الرفق، فقد حُرم حظه من الخير، أثقل شيء في ميزان المؤمن يوم القيامة حسن الخلق، وإن الله ليبغض الفاحش البذيء[18]))[19].

 6) حسن الخلق أكثر ما يُدخِل الناسَ الجنةَ:

عن أبي هريرة، قال: "سئل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن أكثر ما يَلِج الناس به النار، فقال: ((الأجوفان: الفم، والفرج))، وسئل عن أكثر ما يلج الناس به الجنة؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((حسن الخلق))، وفي رواية: ((أكثر ما يلج به الإنسان النار الأجوفان: الفم، والفرج، وأكثر ما يلج به الإنسان الجنة: تقوى الله - عز وجل - وحسن الخلق))[20].
  وعن أبي أمامة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((أنا زعيم ببيت في رَبَض الجنة، لمن ترك المِراء وإن كان محقًّا، وببيت في وسط الجنة لمن ترك الكذب وإن كان مازحًا، وببيت في أعلى الجنة لمن حَسُن خلُقُه))[21].

 7) أكمل المؤمنين إيمانًا وخير المسلمين وأفضلهم أحسنُهم خلقًا:

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم - ((أكمل المؤمنين إيمانًا أحسنهم خلقًا))[22].
  وعنه قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((أكمل المؤمنين إيمانًا أحسنهم خلقًا، وخيارهم خيارهم لنسائهم))[23]، وفي رواية: ((خيركم إسلامًا أحاسنكم أخلاقًا، إذا فقهوا))[24]، وفي رواية: ((خيركم في الإسلام أحاسنكم أخلاقًا، إذا فقهوا))[25]، وفي رواية: ((أفضل المؤمنين إسلامًا مَن سَلِم المسلمون من لسانه ويده، وأفضل المؤمنين إيمانًا أحسنهم خلقًا، وأفضل المهاجرين مَن هجر ما نهى الله - تعالى - عنه، وأفضل الجهاد مَن جاهد نفسه في ذات الله - عز وجل))[26].

 8) حسن الخلق خير ما أُعطي الناس:

عن أسامة بن شريك، قال: أتيتُ النبي - صلى الله عليه وسلم - بعرفات فسلَّمت عليه، وكأن على رؤوس أصحابه الطير، فجاءتْه الأعراب من ههنا وههنا: يا رسول الله، علينا حرج في كذا وكذا؟ علينا حرج في كذا وكذا؟ فقال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((عباد الله، رَفَع الله الحرج إلا مَن اقترض من امرئ مسلم ظلمًا، فذلك الذي حَرِجَ وهلك))، قالوا: يا رسول الله، نتداوى؟ قال: ((تداووا؛ فإن الله - عز وجل - لم يُنْزِل داءً إلا وضع له دواءً إلا الهَرم))، قالوا: يا رسول الله، فما خير ما أُعطي الناس؟ فقال: ((إن الناس لم يعطوا شيئًا خيرًا من خلق حسن))[27].

9) فلفسۃ ارکان الاسلام

10) رفع درجات مَن حسن خلقه:

عن عائشة - رضي الله عنها - قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -:((إن الرجل ليُدرِك بحسن خلقه درجاتِ قائم الليل صائم النهار))[28].

11) البر حسن الخلق:

عن النواس بن سمعان الأنصاري - رضي الله عنه - قال: سألتُ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن البر والإثم، فقال: ((البر حسن الخلق، والإثم ما حاك في صدرك وكرهتَ أن يطلع عليه الناس))[29].

12) وصیتہ الخاصۃ

وعن أبي ذر، قال: قال لي رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((اتقِ الله حيثما كنت، وأتبع السيئةَ الحسنةَ تمحُها، وخالِقِ الناس بخُلق حسن))[30].
  يقول الإمام ابن رجب - رحمه الله - في جامع العلوم والحكم: "((وخالق الناس بخلق حسن)): هذا من خصال التقوى، ولا تتم التقوى إلا به، وإنما أفرده - صلى الله عليه وسلم - بالذكر للحاجة إلى بيانه؛ فإن كثيرًا من الناس يظن أن التقوى هي القيام بحق الله، دون حقوق عباده، فنصَّ له على الأمر بإحسان العشرة للناس"[31].
  وعن عبدالله بن عمر: أن معاذ بن جبل أراد سفرًا، فقال: يا رسول الله، أوصني، قال: ((اعبدِ الله، ولا تشركْ به شيئًا))، قال: يا رسول الله، زدْني، قال: ((إذا أسأت، فأحسن))، قال: يا رسول الله، زدني، قال: ((استقم، ولتحسن خلقك))[32].

13) حسن الخلق ھوا الحسن الحقیقی

وعن قتادة قال: كان يقال: "مثل المرأة السيئة الخلق كالسقاء الواهي في المعطشة، ومثل المرأة الجميلة الفاجرة كمثل خنزيرٍ في عنقه طوق من ذهب"[33].
اسباب حسن الخلق 
1) الدعاء : وكان النبي - صلى الله عليه وسلم - يدعو ربَّه في الاستفتاح للصلاة بأن يهديَه لأحسن الأخلاق ويصرف عنه سيِّئَها، بقوله: ((واهدني لأحسن الأخلاق، ولا يهدي لأحسنها إلا أنت، واصرف عني سيِّئَها، ولا يصرف عني سيئها إلا أنت...))؛ الحديث[34].
  ولقوله - صلى الله عليه وسلم -: ((اللهم اغفر لي ذنوبي وخطاياي كلَّها، اللهم أنعشني واجبرني، واهدني لصالح الأعمال والأخلاق؛ فإنه لا يهدي لصالحها ولا يصرف سيئها إلا أنت))[35].
  2) الأخلاق بين الطبع والتطبع:
وكما يكون الخُلق طبيعة، فإنه قد يكون كسبًا، بمعنى أن الإنسان كما يكون مطبوعًا على الخلق الحسن الجميل، فإنه أيضًا يمكن أن يتخلق بالأخلاق الحسنة عن طريق الكسب والمرونة.
  ولذلك قال النبي - صلى الله عليه وسلم - لأشجِّ عبدالقيس: ((إن فيك خلتينِ يحبهما اللهُ: الحلم والأناة))، قال: يا رسول الله، أنا أتخلق بهما، أم الله جبلني عليهما؟ قال: ((بل الله جبلك عليهما))، قال: الحمد لله الذي جبلني على خلتين يحبهما اللهُ ورسوله[36].
  فهذا دليل على أن الأخلاق الحميدة الفاضلة تكون طبعًا وتكون تطبعًا، ولكن الطبع بلا شكٍّ أحسن من التطبع؛ لأن الخلق الحسن إذا كان طبيعيًّا صار سجيةً للإنسان وطبيعة له، لا يحتاج في ممارسته إلى تكلف، ولا يحتاج في استدعائه إلى عناء ومشقة، ولكن هذا فضل الله يؤتيه مَن يشاء، ومَن حُرِم هذا - أي: حُرِم الخُلق عن سبيل الطبع - فإنه يمكنه أن يناله عن سبيل التطبع؛ وذلك بالمرونة، والممارسة، ومجاهدة النفس لابتغاء مرضاة الله، وثقْ بأنه سيوفقك الله إلى أحسن الأخلاق؛ لقوله - تعالى -: ﴿ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا وَإِنَّ اللَّهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِينَ ﴾ [العنكبوت: 69][37].
  يقول الإمام ابن كثير في تفسيره: ﴿ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا ﴾؛ يعني: الرسول - صلوات الله وسلامه عليه - وأصحابه، وأتباعه إلى يوم الدين، ﴿ لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ﴾؛ أي: لنبصرنَّهم سبلنا؛ أي: طرقنا في الدنيا والآخرة.
  3) وعن عبدالله - رضي الله عنه - قال: "إن الله - تعالى - قَسَمَ بينكم أخلاقَكم، كما قسم بينكم أرزاقكم، وإن الله - تعالى - يعطي المال مَن أحب ومَن لا يحب، ولا يعطي الإيمان إلا مَن يحب، فمَن ضنَّ بالمال أن ينفقه، وخاف العدوَّ أن يجاهده، وهاب الليل أن يكابده؛ فليكثر من قول: لا إله إلا الله، وسبحان الله، والحمد لله، والله أكبر"[38].




[1] مسلم (746).
[2] البخاري (6203)، ومسلم (2150).
[3] تفسير الكريم الرحمن؛ للإمام السعدي - رحمه الله.
[4] البخاري برقم (6038)، ومسلم (2309)، وأحمد (13044)، وأبو داود (4774)، والترمذي (2015).
[5] البخاري (6031)، وأحمد في "المسند" (12296).
[6] البخاري (6853)، ومسلم (2328) واللفظ له، وأحمد (25756)، وأبو داود (4785)، وابن ماجه (1984).
[7] البخاري (3861).
[8] أخرجه أحمد (8939)، تعليق شعيب الأرناؤوط: صحيح، وهذا إسناد قوي رجاله رجال الصحيح، غير محمد بن عجلان؛ فقد روى له مسلم متابعة، وهو قوي الحديث، و"البخاري" في "الأدب المفرد" (273)، وصححه الألباني في "الصحيحة" (45).
[9] جودة: جمع جواد، هو المبالغ في الكرم، وقيل: الجواد: هو الذي يعطي بلا مسألة؛ صيانةً للآخذ من ذل المسألة، وقال الشاعر:
وما الجودُ مَن يعطي إذا ما سألتَه  
ولكن مَن يعطي بغير سؤالِ 
[10] سفسافها: حقيرها ورديئها.
[11] تاريخ دمشق لابن عساكر [14 / 289]، تعليق الألباني: "صحيح"، صحيح الجامع [1800].
[12] حلية الأولياء [5 / 29]، تعليق الألباني: "صحيح"، صحيح الجامع [1744].
[13] صحيح: أخرجه الطبراني (471)، قال المنذري (3/274): رواته محتجٌّ بهم في الصحيح، وقال الهيثمي (8/24): رجاله رجال الصحيح، وابن حبان (486)، قال شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح، والطبراني في الأوسط (6380)، والحاكم (8214)، وسكت عنه الذهبي، وصححه الألباني في"صحيح الجامع" (179).
[14] البخاري (3759).
[15] البخاري (6035)، ومسلم (2321)، وأحمد في "المسند" (6818)، والترمذي (1975).
[16] صحيح: رواه البخاري في" الأدب المفرد (633)، وأحمد (17767، 17778)، تعليق شعيب الأرناؤوط: حسن لغيره، وابن حبان في "صحيحه" (482، 5557)، وقال شعيب الأرناؤوط: رجاله ثقات على شرط مسلم، والبيهقي في "شعب الإيمان"، وصحَّحه الألباني في" صحيح الجامع" (1535)، والترمذي (2018) عن جابر بن عبدالله - رضي الله عنهما.
[17] صحيح: رواه أحمد في "المسند" (27536، 27577)، تعليق شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح، وأبو داود [4799]، تعليق الألباني: "صحيح".
[18] البذيء: هو الرديء والقبيح من الكلام.
[19] البخاري في الأدب المفرد [464] باب الرفق، تعليق الألباني: "صحيح".
[20] أخرجه أحمد (7894، 9085، 9694)، والبخاري في "الأدب المفرد" (289، 294)، وابن ماجه (4246)، والترمذي (2004)، وابن حبان (476)، وحسنه الألباني.
[21] حسن: رواه أبو داود (4800)، قال الشيخ الألباني: حسن.
[22] صحيح: رواه أبو داود (4682)، وابن حبان في "صحيحه"، وصححه الألباني في "صحيح الجامع" (1230).
[23] صحيح: رواه أحمد (7396)، تعليق شعيب الأرناؤوط: صحيح، وهذا إسناد حسن، رجاله ثقات رجال الشيخين غير محمد بن عمرو، فمن رجال أصحاب السنن، والترمذي (1162)، وابن حبان (4176)، وصححه الألباني في "صحيح الجامع" (1232).
[24] صحيح: رواه أحمد في" المسند" (10068، 10245)، تعليق شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح على شرط مسلم.
[25] صحيح: رواه أحمد في" المسند" (10237)، تعليق شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح على شرط مسلم، رجاله ثقات رجال الشيخين غير حماد بن سلمة، فمن رجال مسلم.
[26] أخرجه الطبراني (13/18 رقم 26)، وأخرجه أيضًا: ابن نصر في تعظيم قدر الصلاة (2/600، رقم 639)، وصححه الألباني في "صحيح الجامع" (1129).
[27] صحيح: رواه أحمد (18477) تعليق شعيب الأرناؤوط: إسناده صحيح، رجاله ثقات رجال الشيخين غير أنه لم يخرج له سوى أصحاب السنن، وابن حبان (6061)، وابن ماجه (3436)، وصححه الألباني في "صحيح الجامع" (1977).
[28] رواه الحاكم [199] كتاب الإيمان، تعليق الحاكم: "هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه، وشاهده صحيح على شرط مسلم"، تعليق الذهبي في التلخيص: "على شرطهما"، تعليق الألباني: "صحيح"، صحيح الجامع [1620]، الصحيحة [794].
[29] مسلم ( 2553 )، والبخاري في "الأدب المفرد" (295)، وأحمد في "المسند" (17668)، الترمذي (2389).
[30] حسن: أخرجه أحمد (21681، 21732، )، والدارمي ( 2791 )، و"الترمذي" ( 1987)، وحسنه.
[31] جامع العلوم والحكم، ط. دار المنار ومكتبة فياض، الطبعة الأولى (1/185).
[32] حسن: رواه الطبراني، والحاكم في "المستدرك" (179)، والبيهقي في "شعب الإيمان"، وحسنه الألباني في "صحيح الجامع" (951).
[33] رواه عبدالرزاق في "مصنفه" (20600).
[34] مسلم (771)، وأحمد (803)، وأبو داود (760)، والترمذي (3421، 3422)، والنسائي (897) عن علي بن أبي طالب.
[35] حسن: رواه الطبراني في "الكبير"، وحسنه الألباني في "صحيح الجامع" (1266).
[36] رواه مسلم (17) عن ابن عباس، وأبو داود (5225) عن أم أبان بنت الوازع بن زارع، عن جدها زارع، واللفظ له، ومسلم (18) عن أبي سعيد الخدري.
[37] "مكارم الأخلاق"؛ للعلامة محمد بن صالح العثيمين، حتى قوله: والممارسة.
[38] صحيح موقوف في حكم المرفوع: رواه البخاري في "الأدب المفرد" (275)، وصححه الألباني في "الصحيحة" (2714).


اخلاق مصطفی ﷺ

Read More >>

Monday, 5 February 2018


استاد کی اہمیت

دنیا کا خوبصورت ترین رشتہ ’’استاد‘‘ مگر


استاد دنیا کا خوبصورت ترین لفظ ہے اور تدریس کا شعبہ دنیا کے بہترین شعبوں میں سے ایک ہے۔ استاد شاگرد کا رشتہ دنیا کا بے لوث اور بے غرض رشتہ ہوتا ہے۔ اگر استاد نہ ہوتے جہالت کے کانٹے انسانیت کا دامن تار تار کردیتے، یہ استاد ہی ہے جو ایک معاشرتی حیوان کو علم سے روشناس کرواکے انسانیت کے سانچے میں ڈھالتا ہے۔ یوں تو بچے کے کردار کی تعمیر میں ماں باپ کا بھی ہاتھ ہوتا ہے مگر چونکہ استاد کا کام صرف اور صرف تعلیم کے ساتھ ساتھ بچے کی تربیت اور اسے تہذیب سکھانا ہے اس لئے اس سلسلے میں استاد کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہے۔

دنیا میں جتنے بڑے لوگ پیدا ہوئے انہوں نے پہلے کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ طے کئے پھر دنیا میں نام کما کر امر ہوئے۔ تمام بڑے لوگ اپنے استاد کی ہی محنت کا ثمر تھے۔ علامہ اقبال کو جب انگریز سرکار نے خطاب سے نوازا تو انہوں نے اپنے استاد کو ”شمس العلماء“ کا خطاب دینے کی درخواست کی۔ جب ان سے استاد کی تصنیف طلب کی گئی تو اقبال عظیم نے برملا کہا کہ میں ہوں ان کی تصنیف۔

استاد کی اہمیت و فضیلت

جس طرح ایک استاد کی اہمیت اور فضیلت ہوتی ہے ویسے ہی کچھ اہم ترین ذمہ داریاں بھی لاگو ہوتی ہیں۔ اساتذہ کو جہاں تک ممکن ہو سختی کا مزاج نہیں اپنانا چاہیے۔ بے جا مار پیٹ بچوں کی ذہنی نشونما کے لیے سخت مضر ہے۔ طلبہ پر اپنے بچوں کی طرح پیار نچھاور کریں اور سختی کو تیر بہدف نسخہ سمجھنے سے پہلے ایک لمحے کے لیے ٹھنڈے دل سے سوچ لیجئے کہ اگر سختی مار پیٹ کوئی بہتر چیز ہوتی تو سرکاردو عالم اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیم و تربیت کے لیے نرمی والا مزاج نہ اپناتے۔

ہر طالب علم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے الگ الگ توجہ دینی چاہیے تاکہ ان میں پڑھنے لکھنے کا شوق بیدار ہو۔ کندذہن اور نالائق بچے استاد کی توجہ و تربیت کے ذہین بچوں سے زیادہ محتاج ہوتے ہیں۔ اللہ رب العزت نے آپ کو حیران کن صلاحیتیں رکھنے والا دماغ عطا کیا ہے۔ جس کو بروئے کار لاکر آپ نالائق اور کندذہن بچوں کو حصول علم کے لیے شوق و رغبت پر ابھارسکتے ہیں۔ یہ بچے بھی معاشرے کا حصہ ہوتے ہیں اگر ان پر محنت کی جائے تو آگے جاکر یہ معاشرے میں بہترین کردار ادا کرسکتے ہیں۔

اسی طرح آپ ایک بہترین اور آئیڈیل کردار کے طور پر طلبہ کے سامنے خود کو پیش کریں۔ طلبہ کے سامنے پہناؤ اور گفتار ایسا ہونا چاہیے کہ بچے بغیر کچھ کہے انہیں فالو کرتے ہوئے اچھے سے اچھے کی جانب بڑھیں۔ اگر آپ کسی دینی ادارے میں تدریس سے وابستہ ہیں تو سر سے پاوں تک شریعت کے مزاج میں رنگا ہونا آپ پر فرض ہے۔ بچے اپنے استاد کو جس طرح دیکھتے ہیں اسی انداز میں خود کو ڈھالتے ہیں۔دوسرے لفظوں میں طالب علم استاد کا عکس ہوتا ہے اور بڑے ہوکر استاد بننا 50فیصد بچوں کا خواب

Read More >>


Copyright © 2016 - Ilm o Adab - All Rights Reserved
(Articles Cannot Be Reproduced Without Author Permission.)
| Powered By: Islamic Stories