بسم اللہ الرحمن الرحیم
نبی کریمﷺ کا تحمل اور برداشت
۔ وَمَآ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعٰلَمِيْنَ [الأنبیاء: 107]
۔ بِالْمُؤْمِنِيْنَ رَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ[التوبۃ: 128]
تحمل و برداشت کا معنی و مفہوم
1) ترک العجلۃ: جلد بازی نہ کرنا
2) الأناۃ: ٹھہرائو، وقار اور سوچ کے بعد فیصلہ کرنا
3) ضبط النفس والطبع عند ھیجان الغضب: غصہ اور اشتعال میں اپنے نفس اور طبیعت پر کنٹرول کرنا (المفردات الراغب)
4) ترک الانتقام عند شَدّۃ الغضب مع القدرۃ علی ذالک: طاقت کے باوجود غصہ کے وقت انتقام نہ لینا۔
5) بڑے آدمی کو، اپنے سے کم تر لوگوں کی طرف سے اذیت برداشت کرنا۔ (نضرۃ النعیم)
1۔ یہ صفت ربانی ہے
i) عَلِيْمٌ حَلِيْمٌ [النساء: 12]
ii) وَاللہُ عَلِيْمٌ حَلِيْمٌ [الأحزاب: 51]
iii) وَاِنَّ اللہَ لَعَلِيْمٌ حَلِيْمٌ [الحج: 59]
علم و حلم اور عفو و قدرت سے حسینِ و خوبصورت کوئی امتزاج نہیں۔
[ابن القیم رحمہ اللہ]
i) وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰي ظَہْرِہَا مِنْ دَاۗبَّۃٍ وَّلٰكِنْ يُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓى اَجَلٍ مُّسَمًّى۰ۚ [فاطر:45]
ii) لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللہُ بِاللَّغْوِ فِيْٓ اَيْمَانِكُمْ وَلٰكِنْ يُّؤَاخِذُكُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوْبُكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ حَلِيْمٌ
ترجمہ:خدا تمہاری لغو قسموں پر تم سے مواخذہ نہ کرے گا۔ لیکن جو قسمیں تم قصد دلی سے کھاؤ گے ان پر مواخذہ کرے گا۔ اور خدا بخشنے والا بردبار ہے ۔
[البقرہ: 225]
iii) قَوْلٌ مَّعْرُوْفٌ وَّمَغْفِرَۃٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَۃٍ يَّتْبَعُہَآ اَذًى۰ۭ وَاللہُ غَنِىٌّ حَلِيْمٌ
ترجمہ: جس خیرات دینے کے بعد (لینے والے کو) ایذا دی جائے اس سے تو نرم بات کہہ دینی اور (اس کی بے ادبی سے) درگزر کرنا بہتر ہے اور خدا بےپروا اور بردبار ہے ۔
[البقرہ: 263]
iv) اِنْ تُقْرِضُوا اللہَ قَرْضًا حَسَـنًا يُّضٰعِفْہُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ۰ۭ وَاللہُ شَكُوْرٌ حَلِيْمٌ
ترجمہ: اگر تم خدا کو (اخلاص اور نیت) نیک (سے) قرض دو گے تو وہ تم کو اس کا دوچند دے گا اور تمہارے گناہ بھی معاف کردے گا۔ اور خدا قدر شناس اور بردبار ہے
[التغابن: 17]
v) العظیم الحلیم
دعاء الکرب
۔علم و تحمل علیم حلیم
۔ عفو و تحمل غفور حلیم
۔سخاوت و تحمل غنيٌ حلیم
۔قدردانی و تحمل شکور حلیم
۔عظمت و تحمل العظیم الحلیم
عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " لَا أَحَدَ أَصْبَرُ عَلَى أَذًى يَسْمَعُهُ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ ؛ إِنَّهُ يُشْرَكُ بِهِ، وَيُجْعَلُ لَهُ الْوَلَدُ، ثُمَّ هُوَ يُعَافِيهِمْ وَيَرْزُقُهُمْ ".[صحيح مسلم2804]
2) تحمل اللہ تعالیٰ کو پسند ہے
وَلْيَعْفُوْا وَلْيَصْفَحُوْا۰ۭ اَلَا تُحِبُّوْنَ اَنْ يَّغْفِرَ اللہُ لَكُمْ۰ۭ وَاللہُ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ
ترجمہ: اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے۔ ان کو چاہیئے کہ معاف کردیں اور درگزر کریں۔ کیا تم پسند نہیں کرتے کہ خدا تم کو بخش دے؟ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
[النور: 22]
3) تحمل انبیاء کی صفت
اِنَّ اِبْرٰہِيْمَ لَحَلِيْمٌ اَوَّاہٌ مُّنِيْبٌ
ترجمہ: بےشک ابراہیم بڑے تحمل والے، نرم دل اور رجوع کرنے والے تھے
[ھود: 75]
4) نبوت کا 24 واں حصہ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَرْجِسَ الْمُزَنِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: السَّمْتُ الْحَسَنُ وَالتُّؤَدَةُ وَالِاقْتِصَادُ جُزْءٌ مِنْ أَرْبَعَةٍ وَعِشْرِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ . جامع ترمذي2010
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھی خصلت، غور و خوص کرنا اور میانہ روی نبوت کے چوبیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے“۔
امام ترمذی کہتے ہیں: ۱- یہ حدیث حسن غریب ہے، ۲- اس باب میں ابن عباس رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے۔
[صحیح حدیث]
5) تحمل اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت باعث سکون
الْأَنَاةُ مِنَ اللَّهِ، وَالْعَجَلَةُ مِنَ الشَّيْطَانِ .. جامع ترمذي2012إسناده ضعيف والحديث حسن بشواهده،صحيحه
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سوچ سمجھ کر کام کرنا اور جلد بازی نہ کرنا اللہ کی طرف سے ہے اور جلد بازی شیطان کی طرف سے۔
6) مضبوط قوت ارادی اور حقیقی شجاعت
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ ، إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَهُ عِنْدَ الْغَضَبِ ".[بخاری، مسلم 2609]
7) محبت اور دل جیتنے کا ذریعہ
اِدْفَعْ بِالَّتِيْ ہِىَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِيْ بَيْنَكَ وَبَيْنَہٗ عَدَاوَۃٌ كَاَنَّہٗ وَلِيٌّ حَمِيْمٌ
ترجمہ: اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے
[فصلت: 34]
8) جنتی حوروں کا حق مہر
، عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ يَقْدِرُ عَلَى أَنْ يُنَفِّذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَاءَ
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے غصہ پر قابو پا لیا اس حال میں کہ اس کے کر گزرنے پر قادر تھا، تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ اسے تمام لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اختیار دے گا کہ وہ جنت کی حوروں میں سے جسے چاہے پسند کر لے“۔
(ا) اَعراب کے ساتھ حلم
۔اَلْاَعْرَابُ اَشَدُّ كُفْرًا وَّنِفَاقًا وَّاَجْدَرُ اَلَّا يَعْلَمُوْا حُدُوْدَ مَآ اَنْزَلَ اللہُ عَلٰي رَسُوْلِہٖ۰ۭ وَاللہُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ۹۷
دیہاتی لوگ کفر اور نفاق میں بہت ہی سخت ہیں اور ان کو ایسا ہونا ہی چاہئے کہ ان کو ان احکام کا علم نہ ہو جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائے ہیں اور اللہ بڑا علم والا بڑی حکمت والا ہے [التوبہ ٩:٩٧]
عَنْ سَهْلِ بْنِ مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَظَمَ غَيْظًا وَهُوَ يَسْتَطِيعُ أَنْ يُنَفِّذَهُ دَعَاهُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى رُءُوسِ الْخَلَائِقِ حَتَّى يُخَيِّرَهُ فِي أَيِّ الْحُورِ شَاءَ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص غصہ ضبط کر لے حالانکہ وہ اسے کر گزرنے کی استطاعت رکھتا ہو، تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے لوگوں کے سامنے بلائے گا اور اسے اختیار دے گا کہ وہ جس حور کو چاہے منتخب کر لے“۔
]ترمذي 2021،ابوداؤد،ابن ماجہ [
1۔ مسجد میں قضاء حاجت کرنے والا اعرابی
۔عن أنس بن مالك ، أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى أعرابيا يبول في المسجد فقال " دعوه ". حتى إذا فرغ دعا بماء فصبه عليه.
ترجمہ: انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دیہاتی کو مسجد میں پیشاب کرتے ہوئے دیکھا تو لوگوں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے چھوڑ دو جب وہ فارغ ہو گیا تو پانی منگا کر آپ نے ( اس جگہ ) بہا دیا ۔ [صحیح بخاری: 219، صحیح مسلم: 1862]
۔ أن أبا هريرة ، قال قام أعرابي فبال في المسجد فتناوله الناس ، فقال لهم النبي صلى الله عليه وسلم " دعوه وهريقوا على بوله سجلا من ماء ، أو ذنوبا من ماء ، فإنما بعثتم ميسرين ، ولم تبعثوا معسرين ".
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایک اعرابی کھڑا ہو کر مسجد میں پیشاب کرنے لگا ۔ تو لوگ اس پر جھپٹنے لگے ۔ ( یہ دیکھ کر ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا ہوا ڈول بہا دو ۔ کیونکہ تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو ، سختی کے لیے نہیں ۔
[صحیح بخاری: 220]
۔عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: دَخَلَ أَعْرَابِيٌّ الْمَسْجِدَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فَقَالَ: اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي، وَلِمُحَمَّدٍ، وَلَا تَغْفِرْ لِأَحَدٍ مَعَنَا، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ: لَقَدِ احْتَظَرْتَ وَاسِعًا ، ثُمَّ وَلَّى، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي نَاحِيَةِ الْمَسْجِدِ فَشَجَ يَبُولُ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ بَعْدَ أَنْ فَقِهَ، فَقَامَ: إِلَيَّ بِأَبِي وَأُمِّي، فَلَمْ يُؤَنِّبْ، وَلَمْ يَسُبَّ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا الْمَسْجِدَ لَا يُبَالُ فِيهِ، وَإِنَّمَا بُنِيَ لِذِكْرِ اللَّهِ، وَلِلصَّلَاةِ ، ثُمَّ أَمَرَ بِسَجْلٍ مِنْ مَاءٍ فَأُفْرِغَ عَلَى بَوْلِهِ .
ایک اعرابی (دیہاتی) مسجد میں داخل ہوا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے، اس نے کہا: اے اللہ! میری اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی مغفرت فرما دے، اور ہمارے ساتھ کسی اور کی مغفرت نہ کر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: تم نے ایک کشادہ چیز (یعنی اللہ کی مغفرت) کو تنگ کر دیا ، پھر وہ دیہاتی پیٹھ پھیر کر چلا، اور جب مسجد کے ایک گوشہ میں پہنچا تو ٹانگیں پھیلا کر پیشاب کرنے لگا، پھر دین کی سمجھ آ جانے کے بعد (یہ قصہ بیان کر کے) دیہاتی نے کہا: میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں، مجھے نہ تو آپ نے ڈانٹا، نہ برا بھلا کہا، صرف یہ فرمایا: یہ مسجد پیشاب کی جگہ نہیں ہے بلکہ یہ اللہ کے ذکر اور نماز کے لیے بنائی گئی ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ڈول پانی لانے کا حکم دیا، تو وہ اس کے پیشاب پر بہا دیا گیا۔ [ابن ماجہ: 529]
2۔ مدد کے لیے آنے والے اعرابی کی بے ادبی اور آپ کا حسن سلوک
۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ : كُنْتُ أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَيْهِ بُرْدٌ نَجْرَانِيٌّ غَلِيظُ الْحَاشِيَةِ ، فَأَدْرَكَهُ أَعْرَابِيٌّ فَجَذَبَهُ جَذْبَةً شَدِيدَةً، حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى صَفْحَةِ عَاتِقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَثَّرَتْ بِهِ حَاشِيَةُ الرِّدَاءِ مِنْ شِدَّةِ جَذْبَتِهِ، ثُمَّ قَالَ : مُرْ لِي مِنْ مَالِ اللَّهِ الَّذِي عِنْدَكَ. فَالْتَفَتَ إِلَيْهِ فَضَحِكَ، ثُمَّ أَمَرَ لَهُ بِعَطَاءٍ.
ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہا تھا ۔ آپ نجران کی بنی ہوئی چوڑے حاشیہ کی ایک چادر اوڑھے ہوئے تھے ۔ اتنے میں ایک دیہاتی نے آپ کو گھیر لیا اور زور سے آپ کو کھینچا ، میں نے آپ کے شانے کو دیکھا ، اس پر چادر کے کونے کا نشان پڑ گیا ۔ ایسا کھینچا۔ پھر کہنے لگا ۔ اللہ کا مال جو آپ کے پاس ہے اس میں سے کچھ مجھ کو دلائیے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا اور ہنس دئیے ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دینے کا حکم فرمایا ۔
[صحیح بخاری: 3149]
3۔ قاتل اعرابی
۔أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَخْبَرَ أَنَّهُ غَزَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ نَجْدٍ، فَلَمَّا قَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَفَلَ مَعَهُ، فَأَدْرَكَتْهُمُ الْقَائِلَةُ فِي وَادٍ كَثِيرِ الْعِضَاهِ ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ يَسْتَظِلُّونَ بِالشَّجَرِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَةٍ، وَعَلَّقَ بِهَا سَيْفَهُ، وَنِمْنَا نَوْمَةً، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُونَا، وَإِذَا عِنْدَهُ أَعْرَابِيٌّ، فَقَالَ : " إِنَّ هَذَا اخْتَرَطَ عَلَيَّ سَيْفِي وَأَنَا نَائِمٌ، فَاسْتَيْقَظْتُ وَهُوَ فِي يَدِهِ صَلْتًا ، فَقَالَ : مَنْ يَمْنَعُكَ مِنِّي ؟ فَقُلْتُ : اللَّهُ " ثَلَاثًا. وَلَمْ يُعَاقِبْهُ وَجَلَسَ.
ترجمہ: جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم نے خبر دی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کے اطراف میں ایک غزوہ میں شریک تھے ۔ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہاد سے واپس ہوئے تو آپ کے ساتھ یہ بھی واپس ہوئے ۔ راستے میں قیلولہ کا وقت ایک ایسی وادی میں ہوا جس میں ببول کے درخت بکثرت تھے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وادی میں پڑاو کیا اور صحابہ پوری وادی میں ( درخت کے سائے کے لیے ) پھیل گئے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ببول کے نیچے قیام فرمایا اور اپنی تلوار درخت پر لٹکادی ۔ ہم سب سو گئے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پکارنے کی آواز سنائی دی ، دیکھا گیا تو ایک بدوی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس نے غفلت میں میری ہی تلوار مجھ پر کھینچ لی تھی اور میں سویا ہوا تھا ، جب بیدار ہوا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں تھی ۔ اس نے کہا مجھ سے تمہیں کون بچائے گا ؟ میں نے کہا کہ اللہ ! تین مرتبہ ( میں نے اسی طرح کہا اور تلوار اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر گر گئی ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اعرابی کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے ۔ ( پھر وہ خود متاثر ہو کر اسلام لائے ) ۔
[صحیح بخاری: 2910، صحیح مسلم: 843]
وفی روایۃ: تشھد أن لا إلہ إلا اللہ وأنّی رسول اللہ؟
قال: أُعَاھدک علی أن لا أقا تلک، ولا أکون مع قوم یقاتلونک قوم کے پاس آیا جئتکم من عند خیرالناس
[حاکم: 4322]
4۔ سوالات کے جوابات
۔ صحابہ کا عمومی رویہ
i) انوکھا انداز
۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ قَالَ نُهِينَا أَنْ نَسْأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ شَيْئٍ فَکَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَجِيئَ الرَّجُلُ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ الْعَاقِلُ فَيَسْأَلَهُ وَنَحْنُ نَسْمَعُ فَجَائَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ أَتَانَا رَسُولُکَ فَزَعَمَ لَنَا أَنَّکَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَکَ قَالَ صَدَقَ قَالَ فَمَنْ خَلَقَ السَّمَائَ قَالَ اللَّهُ قَالَ فَمَنْ خَلَقَ الْأَرْضَ قَالَ اللَّهُ قَالَ فَمَنْ نَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ وَجَعَلَ فِيهَا مَا جَعَلَ قَالَ اللَّهُ قَالَ فَبِالَّذِي خَلَقَ السَّمَائَ وَخَلَقَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ هَذِهِ الْجِبَالَ آللَّهُ أَرْسَلَکَ قَالَ نَعَمْ قَالَ وَزَعَمَ رَسُولُکَ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي يَوْمِنَا وَلَيْلَتِنَا قَالَ صَدَقَ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَکَ آللَّهُ أَمَرَکَ بِهَذَا قَالَ نَعَمْ قَالَ وَزَعَمَ رَسُولُکَ أَنَّ عَلَيْنَا زَکَاةً فِي أَمْوَالِنَا قَالَ صَدَقَ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَکَ آللَّهُ أَمَرَکَ بِهَذَا قَالَ نَعَمْ قَالَ وَزَعَمَ رَسُولُکَ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرِ رَمَضَانَ فِي سَنَتِنَا قَالَ صَدَقَ قَالَ فَبِالَّذِي أَرْسَلَکَ آللَّهُ أَمَرَکَ بِهَذَا قَالَ نَعَمْ قَالَ وَزَعَمَ رَسُولُکَ أَنَّ عَلَيْنَا حَجَّ الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا قَالَ صَدَقَ قَالَ ثُمَّ وَلَّی قَالَ وَالَّذِي بَعَثَکَ بِالْحَقِّ لَا أَزِيدُ عَلَيْهِنَّ وَلَا أَنْقُصُ مِنْهُنَّ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَئِنْ صَدَقَ لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ
ترجمہ: انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ چونکہ ہمیں از خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرنے سے روک دیا گیا تھا اس لئے ہمیں اس بات سے خوشی ہوتی تھی کہ کوئی سمجھدار دیہاتی آئے اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سوال کرے اور ہم بھی سنیں۔ اتفاقا ایک دیہاتی آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاصد ہمارے ہاں آیا تھا اور اس نے کہا تھا کہ اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا ہے، اس دیہاتی نے کہا آسمان کو کس نے بنایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے، اس نے عرض کیا زمین کو کس نے بنایا؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے، اس نے عرض کیا ان پہاڑوں کو کس نے بنایا؟ فرمایا اللہ تعالیٰ نے، اس دیہاتی نے عرض کیا اس اللہ کی قسم جس نے آسمان بنایا زمین بنائی پہاڑ قائم کئے کیا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں بے شک دیہاتی نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاصد کہتا تھا کہ دن رات میں ہم پر پانچ نمازیں فرض ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا، دیہاتی نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا حکم بھی دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں، دیہاتی نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاصد یہ بھی کہتا تھا کہ ہم پر اپنے مال کی زکوة ادا کرنا فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے سچ کہا، دیہاتی نے عرض کیا کہ اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم بھی دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں، دیہاتی نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاصد کہتا تھا کہ سال میں ماہ رمضان کے روزے بھی ہم پر فرض ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اس نے سچ کہا، دیہاتی نے کہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس اللہ کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پیغمبر بنا کر بھیجا ہے کیا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کا حکم بھی دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہاں، دیہاتی نے عرض کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قاصد یہ بھی کہتا تھا کہ ہم میں سے جس کو استطاعت زادِ راہ ہو اس پر بیت اللہ کا حج کرنا بھی ضروری ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اس نے سچ کہا، اس کے بعد وہ دیہاتی پشت پھیر کر یہ کہتا ہوا چلا گیا قسم ہے اس اللہ کی جس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا میں ان باتوں میں نہ زیادہ کروں گا اور نہ کمی کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر اس نے سچ کہا ہے تو وہ ضرور جنت میں داخل ہوگا۔
[صحیح بخاری: 633، صحیح مسلم: 12]
ii) دوران گفتگو سوال
عن أبي هريرة ، قال بينما النبي صلى الله عليه وسلم في مجلس يحدث القوم جاءه أعرابي فقال متى الساعة فمضى رسول الله صلى الله عليه وسلم يحدث ، فقال بعض القوم سمع ما قال ، فكره ما قال ، وقال بعضهم بل لم يسمع ، حتى إذا قضى حديثه قال " أين ـ أراه ـ السائل عن الساعة ". قال ها أنا يا رسول الله. قال " فإذا ضيعت الأمانة فانتظر الساعة ". قال كيف إضاعتها قال " إذا وسد الأمر إلى غير أهله فانتظر الساعة ".
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں میں بیٹھے ہوئے ان سے باتیں کر رہے تھے ۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ قیامت کب آئے گی ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو میں مصروف رہے ۔ بعض لوگ ( جو مجلس میں تھے ) کہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیہاتی کی بات سنی لیکن پسند نہیں کی اور بعض کہنے لگے کہ نہیں بلکہ آپ نے اس کی بات سنی ہی نہیں ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی باتیں پوری کر چکے تو میں سمجھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا وہ قیامت کے بارے میں پوچھنے والا کہاں گیا اس ( دیہاتی ) نے کہا ( حضور ) میں موجود ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب امانت ( ایمانداری دنیا سے ) اٹھ جائے تو قیامت قائم ہونے کا انتظار کر ۔ اس نے کہا ایمانداری اٹھنے کا کیا مطلب ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب ( حکومت کے کاروبار ) نالائق لوگوں کو سونپ دئیے جائیں تو قیامت کا انتظار کر ۔
[صحیح بخاری: 59]
iii) بلند آواز میں سوال
قالت حفصة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " خمس من الدواب لا حرج على من قتلهن الغراب والحدأة والفأرة والعقرب والكلب العقور ".
ترجمہ: حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پانچ جانور ایسے ہیں جنہیں مارنے میں کوئی گناہ نہیں کوا ، چیل ، چوہا ، بچھو اور کاٹ کھانے والا کتا ۔
[صحیح بخاری: 1828]
فی روایۃ لابی عوانۃ (4 / 362) قاری النبیﷺ
iv) مثال سے سمجھانا اور اشکال دور کرنا
[صحیح بخاری: 5309]
5۔ اعرابی کے ساتھ تجارت میں تحمل
۔عَنْ عُمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ، أَنَّ عَمَّهُ حَدَّثَهُ، وَهُوَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَ فَرَسًا مِنْ أَعْرَابِيٍّ، فَاسْتَتْبَعَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَقْضِيَهُ ثَمَنَ فَرَسِهِ، فَأَسْرَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَشْيَ وَأَبْطَأَ الْأَعْرَابِيُّ، فَطَفِقَ رِجَالٌ يَعْتَرِضُونَ الْأَعْرَابِيَّ فَيُسَاوِمُونَهُ بِالْفَرَسِ، وَلَا يَشْعُرُونَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتَاعَهُ، فَنَادَى الْأَعْرَابِيُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنْ كُنْتَ مُبْتَاعًا هَذَا الْفَرَسِ وَإِلَّا بِعْتُهُ، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ سَمِعَ نِدَاءَ الْأَعْرَابِيِّ، فَقَالَ: أَوْ لَيْسَ قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ، فَقَالَ الْأَعْرَابِيُّ: لَا وَاللَّهِ مَا بِعْتُكَهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلَى، قَدِ ابْتَعْتُهُ مِنْكَ، فَطَفِقَ الْأَعْرَابِيُّ يَقُولُ: هَلُمَّ شَهِيدًا، فَقَالَ خُزَيْمَةُ بْنُ ثَابِتٍ: أَنَا أَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَايَعْتَهُ، فَأَقْبَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى خُزَيْمَةَ، فَقَالَ: بِمَ تَشْهَدُ ؟، فَقَالَ: بِتَصْدِيقِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَهَادَةَ خُزَيْمَةَ بِشَهَادَةِ رَجُلَيْنِ .
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اعرابی سے ایک گھوڑا خریدا، آپ اسے اپنے ساتھ لے آئے تاکہ گھوڑے کی قیمت ادا کر دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی چلنے لگے، دیہاتی نے تاخیر کر دی، پس کچھ لوگ دیہاتی کے پاس آنا شروع ہوئے اور گھوڑے کا مول بھاؤ کرنے لگے اور وہ لوگ یہ نہ سمجھ سکے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خرید لیا ہے، چنانچہ دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارا اور کہا: اگر آپ اسے خریدتے ہیں تو خرید لیجئے ورنہ میں نے اسے بیچ دیا، دیہاتی کی آواز سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور فرمایا: کیا میں تجھ سے اس گھوڑے کو خرید نہیں چکا؟ دیہاتی نے کہا: نہیں، قسم اللہ کی، میں نے اسے آپ سے فروخت نہیں کیا ہے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں؟ میں اسے تم سے خرید چکا ہوں پھر دیہاتی یہ کہنے لگا کہ گواہ پیش کیجئے، تو خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ بول پڑے کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فروخت کر چکے ہو، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خزیمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم کیسے گواہی دے رہے ہو؟ خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کی تصدیق کی وجہ سے، اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خزیمہ رضی اللہ عنہ کی گواہی کو دو آدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دے دیا۔
[ابوداؤد: 3607، نسائی:4647، الارواء: 1286]
۔
[مسند احمد: 25780 حسنہ الارفؤوط]
ب) مشرکین کے ساتھ تحمل
1) ضماد ازدی
۔عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ ضِمَادًا قَدِمَ مَكَّةَ وَكَانَ مِنْ أَزْدِ شَنُوءَةَ وَكَانَ يَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ فَسَمِعَ سُفَهَاءَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ يَقُولُونَ إِنَّ مُحَمَّدًا مَجْنُونٌ فَقَالَ لَوْ أَنِّي رَأَيْتُ هَذَا الرَّجُلَ لَعَلَّ اللَّهَ يَشْفِيهِ عَلَى يَدَيَّ قَالَ فَلَقِيَهُ فَقَالَ يَا مُحَمَّدُ إِنِّي أَرْقِي مِنْ هَذِهِ الرِّيحِ وَإِنَّ اللَّهَ يَشْفِي عَلَى يَدِي مَنْ شَاءَ فَهَلْ لَكَ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الْحَمْدَ لِلَّهِ نَحْمَدُهُ وَنَسْتَعِينُهُ مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ أَمَّا بَعْدُ قَالَ فَقَالَ أَعِدْ عَلَيَّ كَلِمَاتِكَ هَؤُلَاءِ فَأَعَادَهُنَّ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ قَالَ فَقَالَ لَقَدْ سَمِعْتُ قَوْلَ الْكَهَنَةِ وَقَوْلَ السَّحَرَةِ وَقَوْلَ الشُّعَرَاءِ فَمَا سَمِعْتُ مِثْلَ كَلِمَاتِكَ هَؤُلَاءِ وَلَقَدْ بَلَغْنَ نَاعُوسَ الْبَحْرِ قَالَ فَقَالَ هَاتِ يَدَكَ أُبَايِعْكَ عَلَى الْإِسْلَامِ قَالَ فَبَايَعَهُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَلَى قَوْمِكَ قَالَ وَعَلَى قَوْمِي قَالَ فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَرِيَّةً فَمَرُّوا بِقَوْمِهِ فَقَالَ صَاحِبُ السَّرِيَّةِ لِلْجَيْشِ هَلْ أَصَبْتُمْ مِنْ هَؤُلَاءِ شَيْئًا فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ أَصَبْتُ مِنْهُمْ مِطْهَرَةً فَقَالَ رُدُّوهَا فَإِنَّ هَؤُلَاءِ قَوْمُ ضِمَادٍ
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ضمادمکہ آیا،وہ (قبیلہ) از دشنوء سے تھا اور آسیب کا دم کیا کرتا تھا(جسے لوگ ریح کہتے تھے،یعنی ایسی ہوا جو نظرنہیں آتی ،اثر کرتی ہے) اس نے مکہ کے بے وقوفوں کو یہ کہتے سنا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو جنون ہوگیا ہے(نعوذ باللہ) اس نے کہا: اگر میں اس آدمی کو دیکھ لوں تو شاید اللہ تعالیٰ اسے میرے ہاتھوں شفا بخش دے۔کہا:وہ آپ سے ملا اور کہنے لگا:اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم !میں اس نظر نہ آنے والی بیماری(ریح) کو زائل کرنے کے لئے دم کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے میرے ہاتھوں شفا بخشتا ہے تو آپ کیا چاہتے ہیں(کہ میں دم کروں؟)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (جواب میں ) کہا: ان الحمد لله نحمده ونستعينه من يهده الله فلا مضل له ومن يضلل فلا هادي له واشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له وان محمداً عبد ہٗ ورسوله اما بعد یقیناً تمام حمد اللہ کے لیے ہے،ہم اسی کی حمد کرتے ہیں اور اسی سے مدد مانگتے ہیں،جس کو اللہ سیدھی راہ پرچلائے،اسے کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اور جسے وہ گمراہ چھوڑ دے،اسے کوئی راہ راست پر نہیں لاسکتا اور میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سواکوئی سچا معبود نہیں،وہی اکیلا(معبود) ہے،ا س کا کوئی شریک نہیں اور بلاشبہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے،اس کے بعد! کہا: وہ بول اٹھا:اپنے یہ کلمات مجھے دوبارہ سنائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ کلمات اس کے سامنے دہرائے۔اس پر اس نے کہا: میں نے کاہنوں،جادوگروں اور شاعروں(سب) کے قول سنے ہیں،میں نے آپ کے ان کلمات جیسا کوئی کلمہ(کبھی) نہیں سنا،یہ تو بحر(بلاغت) کہ تہ تک پہنچ گئے ہیں اور کہنے لگا:ہاتھ بڑھایئے!میں آپ کے ساتھ اسلام پر بیعت کرتا ہوں۔کہا:تو اس نے آپ کی بیعت کرلی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور تیری (طرف سے تیری) قوم(کے اسلام) پر بھی (تیری بیعت لیتاہوں) اس نے کہا: اپنی قوم(کے اسلام) پر بھی(بیعت کرتاہوں) اس کے بعد آپ نے ایک سریہ(چھوٹا لشکر) بھیجا،وہ ان کی قوم کے پاس سے گزرے تو امیر لشکر نے لشکر سے پوچھا:کیا تم نے ان لوگوں سے کوئی چیز لی ہے؟تو لوگوں میں سے ایک شخص نے کہا:میں نے ان سے ایک لوٹا لیا ہے اس نے کہا:اسے واپس کردو کیونکہ یہ(کوئی اور نہیں بلکہ)ضماد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قوم ہے۔
2) زید بن سعنہ
3)واقعہ طائف
عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُرْوَةُ، أَنَّ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَتْهُ أَنَّهَا قَالَتْ: لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، هَلْ أَتَى عَلَيْكَ يَوْمٌ كَانَ أَشَدَّ مِنْ يَوْمِ أُحُدٍ؟، قَالَ: ""لَقَدْ لَقِيتُ مِنْ قَوْمِكِ مَا لَقِيتُ وَكَانَ أَشَدَّ مَا لَقِيتُ مِنْهُمْ يَوْمَ الْعَقَبَةِ إِذْ عَرَضْتُ نَفْسِي عَلَى ابْنِ عَبْدِ يَالِيلَ بْنِ عَبْدِ كُلَالٍ فَلَمْ يُجِبْنِي إِلَى مَا أَرَدْتُ فَانْطَلَقْتُ، وَأَنَا مَهْمُومٌ عَلَى وَجْهِي فَلَمْ أَسْتَفِقْ إِلَّا وَأَنَا بِقَرْنِ الثَّعَالِبِ فَرَفَعْتُ رَأْسِي فَإِذَا أَنَا بِسَحَابَةٍ قَدْ أَظَلَّتْنِي فَنَظَرْتُ، فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ فَنَادَانِي، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، فَقَالَ: ذَلِكَ فِيمَا شِئْتَ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمُ الْأَخْشَبَيْنِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا"".
انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا کہ تمہاری قوم ( قریش ) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے ( طائف کے سردار ) کنانہ بن عبد یا لیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔ لیکن اس نے ( اسلام کو قبول نہیں کیا اور ) میری دعوت کو رد کر دیا۔ میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔ پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا، تب مجھ کو کچھ ہوش آیا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ جبرائیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے رد کیا ہے وہ بھی سن چکا۔ آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں۔ اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، انہوں نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پھر انہوں نے بھی وہی بات کہی، آپ جو چاہیں ( اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں ( جن سے وہ چکنا چور ہو جائیں ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی عبادت کرے گی، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔
ج) منافقین کی ایذاء رسانیوں کو برداشت کرنا
أن عبد الله بن أبى لما توفي جاء ابنه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله أعطني قميصك أكفنه فيه ، وصل عليه واستغفر له ، فأعطاه النبي صلى الله عليه وسلم قميصه فقال " آذني أصلي عليه ". فآذنه ، فلما أراد أن يصلي عليه جذبه عمر ـ رضى الله عنه ـ فقال أليس الله نهاك أن تصلي على المنافقين فقال " أنا بين خيرتين قال { استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة فلن يغفر الله لهم} ". فصلى عليه فنزلت { ولا تصل على أحد منهم مات أبدا}
ترجمہ: عبداللہ بن ابی ( منافق ) کی موت ہوئی تو اس کا بیٹا ( عبداللہ صحابی ) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! والد کے کفن کے لیے آپ اپنی قمیص عنایت فرمائیے اور ان پر نماز پڑھئے اور مغفرت کی دعا کیجئے ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص ( غایت مروت کی وجہ سے ) عنایت کی اور فرمایا کہ مجھے بتانا میں نماز جنازہ پڑھوں گا ۔ عبداللہ نے اطلاع بھجوائی ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھا نے کے لیے آگے بڑھے تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیچھے سے پکڑ لیا اور عرض کیا کہ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع نہیں کیا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے اختیار دیا گیا ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے ” تو ان کے لیے استغفار کر یا نہ کر اور اگر تو ستر مرتبہ بھی استغفار کرے تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا “ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ۔ اس کے بعد یہ آیت اتری ” کسی بھی منافق کی موت پر اس کی نماز جنازہ کبھی نہ پڑھانا “
[صحیح بخاری: 1269]
حکمتیں
۔بیٹے کی تالیف قلبی
۔خزرج قبیلے کی دلجوئی
۔عدم ممانعت
۔طبعی شفقت
۔حضرت عباس پر احسان کا بدلہ
[صحیح بخاری: 1350]
1۔ الحِلْمُ بالتَّحَلُّم
2۔ مثبت سوچ کی عادت اپنائیں۔
(مثال: i۔ لنگڑا چلنے کی مثال۔۔۔۔؟ ii۔ کیا اندھا ہے تو؟ iii۔ تھپڑمارا تو؟)
3۔ رب پر توکل رکھیں، جلد بازی نہ کریں۔
4۔ دوسروں کے لیے عذر تلاش کریں۔
5۔ دوسروں کی خوبیوں پر بھی نظر رکھیں۔
6۔ غصے کو پی جائیں۔
i۔ غصے کے انجام پر نگاہ رکھیں۔
ii۔ کھڑے ہوں تو بیٹھ جائیں، بیٹے ہوں تو لیٹ جائیں، خاموش ہو جائیں، وضو کریں۔
7۔ حل کے لیے دعا کریں۔
8۔ اختلافات کو حسن سمجھیں اور فطری چیز سمجھیں، اسے عداوت کا ذریعہ نہ بنائیں۔
9۔ ماحول میں تبدیلی پیدا کریں، نیک، بردبار لوگوں کی صحبت میں رہیں۔
10۔ آسمان کی طرف نگاہ اٹھائیں اور اپنی غلطیوں کو دیکھیں۔
ج۔ رشتہ داروں کے ساتھ تحمل
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَجُلًا قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي قَرَابَةً أَصِلُهُمْ وَيَقْطَعُونِي، وَأُحْسِنُ إِلَيْهِمْ وَيُسِيئُونَ إِلَيَّ، وَأَحْلُمُ عَنْهُمْ وَيَجْهَلُونَ عَلَيَّ. فَقَالَ : " لَئِنْ كُنْتَ كَمَا قُلْتَ فَكَأَنَّمَا تُسِفُّهُمُ الْمَلَّ ، وَلَا يَزَالُ مَعَكَ مِنَ اللَّهِ ظَهِيرٌ عَلَيْهِمْ مَا دُمْتَ عَلَى ذَلِكَ ".
’’جلی ہوئی روٹی اتنی تکلیف نہیں دیتی، جتنے الفاظ تکلیف دیتے ہیں‘‘
’’ ہم سب کی زندگی غلطیوں سے بھری ہوئی انہیں برداشت کرنا ہی مضبوط رشتوں کی ضمانت ہے۔‘‘
واقعہ مسطح ۔ ابوبکر۔ عائشہ رضی اللہ عنھا
د۔ خادموں کے ساتھ تحمل
۔حضرت انس
عن أنس قال: "خدمتُ النبي - صلى الله عليه وسلم - عشر سنين، فما قال لي: أفٍّ قط، وما قال لشيء صنعتُه: لِمَ صنعتَه؟ ولا لشيء تركتُه: لِمَ تركتَه؟ وكان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - من أحسن الناس خلقًا"
[البخاري برقم (6038)، ومسلم (2309)]
۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز
۔سید داؤد غزنوی اور عمر تبتی
ح۔ نظریاتی مخالفین کے ساتھ تحمل
میثاق مدینہ، صلح حدیبیہ ، یہودی بچے کی تیمارداری
د۔ ان معاملات میں تحمل نہیں بلکہ حمیت وغیرت کا مطالبہ ہے
۔دین کی مخالفت ۔ مداہنت اور تحمل میں فرق
۔دین کے خلاف ہرزہ سرائیاں
۔عزت و ناموس پر حملہ ```
0 comments :
Post a Comment