Latest: Add Latest Article Here | Recommended: Add Recommended Article Here

Ilm o Adab website you have Seerat un Nabi PBUH, Quotes of the Day, Azkar e Masnoona, Stories, Model Speech like waldain ki azmat and much more.


Sunday, 4 February 2018


فضیلتِ علم

علم کی فضیلت


نحمدہ ونصلی علی رسول الکریم أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم


‘‘ يَرْفَعِ اللہُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ’’
وَقَالَ النَّبِیُّ ﷺ مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَلْتَمِسُ فِیْہِ عِلْمًا سَھَّلَ اللہُ لَہٗ بِہٖ طَرِیْقًا اِلَی الجَنَّۃِ (او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم)۔

سبب کیا ہے؟ تو اس کو خود سمجھتا ہے
زوالِ بندۂ مؤمن کا، بے زری سے نہیں 
جہاں میں جوہر اگر کوئی آشکارا ہوا
قلندری سے ہوا ہے، تو نگری سے نہیں

محترم سامعین!۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ                   

آج میں آپ حضرات کے سامنے ’’علم کی فضیلت‘‘ کے موضوع پر چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سامعین گرامی۔۔۔۔۔۔!۔
علم کا معنی آتا ہے جاننے کے چنانچہ علماء اور فقہاء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہر بالغ مسلمان مرد اور عورت پر اتنا علم حاصل کرنا ضروری ہے جس کے ذریعے سے وہ اپنے چوبیس گھنٹے کی زندگی شریعت کے احکام کے مطابق گزار سکے اور حلال اور حرام پاکی اور ناپاکی میں تمیز اور فرق کر سکے۔
حضورﷺ کا ارشاد ہے ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٗ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ‘‘ علم کا طلب کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔

سامعین محترم!۔۔۔۔
علم ہی وہ چیز ہے جس کے ذریعے انسان اور حیوان میں تمیز کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ اور علم ہی وہ نعمت ہے جس کے بدولت آدم علیہ السلام مسجود ملائکہ بنتا ہے۔۔۔۔۔ ہاں، ہاں علم ہی وہ کیمیائے سعادت ہے جو مخلوق کو خالق سے اور عبد کو معبود سے قریب تر کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:۔
‘‘قُلْ ہَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا يَتَذَكَّرُ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝۹ۧ’’
[زمر: 9]

یعنی جاننے والا اور نہ جاننے والے دونوں کبھی بھی برابر نہیں ہوسکتے۔ حدیث میں آتا ہے جب کوئی آدمی علم کے راستے کو اختیار کرتا ہے تو اس کے لئے اللہ تعالیٰ جنت کے راستے کو آسان کر دیتے ہیں اور ایک حدیث میں آتا ہے کہ عالم کی فضیلت عابد پر اس طرح ہے جس طرح چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔۔۔۔۔حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے۔

رَضِیْنَا قِسْمَۃَ الْجَبَّارِ فِیْنَا
لَنَا عِلْم وَلِلْجھَّالِ مَالُ

یعنی ہم اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر پر راضی ہیں وہ یہ ہے کہ ہمارے لئے تو علم مقرر کیا گیا اور جاہلوں کے لئے مال۔ شیخ سعدی رحمہ اللہ کا ارشاد ہے:۔

برو دامن علم گیر ستوار
کہ علمت رساند بدار القرار

جاؤ علم کے دامن کو مضبوطی سے تھام لو کیونکہ تمہیں جنت میں پہنچائے گا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں علم نافع عطا فرمائے اور دین متین کی عالی محنت کے لئے قبول فرمائے۔ (آمین)۔

وما علینا الا البلاغ المبین
Read More >>

Saturday, 3 February 2018


اسلام میں عورت کی کیا حیثیت ہے

اسلام میں عورت کا مقام

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم امّا بعد! فأعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَہُوَمُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّہٗ حَيٰوۃً طَيِّبَۃً
(صدق اللہ العظیم)
محترم سامعین!۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج میری تقریر کا موضوع ’’اسلام میں عورت کا مقام‘‘ کے عنوان سے معنون ہے۔

سامعین گرامی۔۔۔۔۔۔!۔
لفظ ’’عورت‘‘ کا معنی لغت میں ’’چھپانے کی چیز‘‘ کے ہیں۔۔۔۔۔ اس لغوی معنی کو سنتے ہی ایک ذی شعور انسان جسے اللہ تبارک وتعالیٰ نے ادنیٰ عقلل و فراست سے نوازا بخوی جان لے گا کہ جہاں عورت ہو گی وہاں پردہ ضرور ہو گا۔۔۔۔ گویا عورت اور پردہ لازم اور ملزوم ہے۔۔۔۔۔ اور یہی پردہ شریعت کو مطلوب ہے۔۔۔۔ جو معاشرے کی طہارت اور ماحول کی نظافت کا ضامن ہے ۔۔۔۔ ہاں! پردہ جس کے اندر بقائے انسانیت اور احیائے نسلیت کا راز مضمر ہے۔۔۔۔۔ جس کے بغیر اس کائنات میں امن و امان اور سکون و آشتی کاقیام ناممکن ہے۔

سامعین مکرم۔۔۔۔۔!۔

عورت ذات کو اسلام نے جو مرتبہ اور مقام عطا فرمایا ہے اس سے دیگر مذاہب تہی دامن ہے۔۔۔۔۔ چنانچہ تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اسلام سے قبل لفظ ’’عورت‘‘ ناقابل سماعت تھی۔ عورت کی قدر راہ پڑی چیز سے زیادہ نہ تھی۔۔ بچیوں کو زندہ درگور کیا جانا معیوب نہ تھا۔۔۔ عورت نجاست کا ڈھیر اور شیطان کی نمائندہ تھی۔۔۔ ایّام مخصوص میں ان کے لیے الگ جگہ مقرر تھی۔۔۔۔ بچی کی ولادت کی خبر انتہائی ناگوار تھی۔۔۔۔ عورت ذات محض ایک کھلونا تھا۔۔۔۔ بے حیائی اور بے پردگی سرِ عام تھی۔۔۔۔۔ ہر گلی اور کوچے میں عورت کی عزت کا نیلام تھا۔

لیکن میرے محبوبﷺ کے آمد مسعود سے عورت کو دنیا میں جینے کا صحیح حق ملا۔۔۔ معاشرے میں باعزت مقام ملا۔۔۔ کہیں بیٹی، کہیں بہن، کہیں بیوی اور کہیں ماں جیسی عظیم الشان صفات ملی۔۔۔۔ عورتوں کو گھر کی مالکن ہونے کا شرف ملا۔۔۔ تین بچیوں کی تربیت کرنے پر جنت کی نوید ملی۔۔۔۔ ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت ملی۔

سامعین محترم۔۔۔۔۔۔۔!۔

مجھے فخر ہے کہ دینِ اسلام عورت ذات کے متعلق کسی بھی قسم کی تحقیر، توہین اور تذلیل آمیز نظریات نہیں رکھتا۔۔۔۔ بلکہ مجھے کہنےدیجیئے! اس عورت ذات نے مجھے زندگی عطا کی ہے، لہٰذا میں اس سے زندہ رہنے کا حق نہیں چھین سکتا۔۔۔ اس نے میری نجاستیں دھو کر مجھے انگلی سے پکڑ کر زمین پر چلنے کا طریقہ سکھایا، لہٰذا میں اس کے پاؤں تلے سے زمین نہیں چھین سکتا۔۔۔۔ اس کا ودیعت کردہ خون میری رگوں میں دوڑ رہا ہے، لہٰذا شیطان کا دروازہ یا گناہوں کا محل نہیں کہہ سکتا۔۔۔ اس نے اپنی زندگی کی ہر سانس کے ساتھ مجھے دعائوں سے نوازا ہے، لہٰذا میں اسے حقارت آمیز گالیاں نہیں دے سکتا۔۔۔۔ اس نے مجھے کامل و مکمل بنایا ہے، لہٰذا میں اسے نامکمل نہیں کہہ سکتا۔۔۔۔ اس نے مجھے گھر کی پرسکون اور پر امن ماحول عطا کی ہے، لہٰذا میں اسے فتنہ و فساد کی جڑ قرار نہیں دے سکتا۔۔۔۔ یہ میرا لباس ہے، لہٰذا میں اسے نگِ انسانیت کا طعنہ نہیں دے سکتا۔

 معزز سامعین۔۔۔۔!۔

آج پھر اس صنفِ نازک پر مختلف انواع کے ظلم ڈھائے جا رہے ہیں۔۔۔۔ آزادیٔ نسواں کے پُر فریب نعروں سے ان کو دھوکہ دیا جارہا ہے۔۔۔ کہیں فیشن اور کہیں مقابلۂ حسن کے نام پر ان کو سرِ عام ننگا کیا جارہا ہے۔۔۔ ہر کس و ناکس عورت ذات کو اپنی ہوس کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔۔۔۔ اور آزادی کے نام پر عورت کو بہن ، بیٹی، بیوی اور ماں بننے کے اعزاز سے روکا جارہا ہے۔۔۔ عورتوں کو کلبوں اور محفلوں میں نچایا جارہا ہے۔۔۔ ان کی عزت و ناموس کو ہر گلی کوچے میں لوٹا جا رہا ہے۔۔۔۔ باریک کپڑوں میں ملبوس ہونا قابلِ عزت مانا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ بھری سڑک میں مختصر لباس میں چلنے پھرنے کو ترقی کہا جا رہا ہے۔۔۔۔ ’’الامان، الحفیظ‘‘ اب تو ان سے ہاکی اور کرکٹ بھی کھلوایا جا رہا ہے۔۔۔ الغرض بنت ہوا کو ذلیل و خوار کیا جارہا ہے ۔۔۔۔ جس کو آزادیٔ نسواں کا نام دیا جا رہا ہے۔

شاعر کہتا ہے۔۔۔۔!۔
آزادی یہ نہیں کہ عورت بے حیا ہو جائے
فیشن یہ نہیں کہ عورت بے قبا ہو جائے 
اسلام ہی ہے سب کے لئے مثل چراح بہنو!۔
روشنی یہ نہیں کہ عورت بے ضیاء ہو جائے

حاضرین مجلس۔۔۔!۔

یہی ناسور اور ناپاک اور عیاش لوگ قرآنی احکام میں تاویل کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ علماء ربانیین کو دقیانوسیت کے القاب دے رہے ہیں۔۔۔۔۔ عورتوں کو ان کے اصلی مقام اور مرتبہ بتانے والوں کو تنگ نظر کہا جا رہا ہے۔۔۔۔ عورتوں کو ان کا حق دلوانا ظلم بتایا جا رہا ہے۔۔۔۔۔ ہمارے مسلم حکمران بھی ان ناپاک نعروں کے مستی میں جھوم رہے ہیں۔۔۔۔ مسلمانوں کے نام نہاد دانشور غیر مسلموں اور فرنگیوں کی تقلید میں پیش پیش نظر آرہے ہیں۔

افسوس میرے مسلمان بھائیو! اب تو ہوش کے ناخن لیجئے۔۔۔۔ اب تو اپے ضمیر کو جھنجھوڑیئے۔۔۔۔۔ خدارا اب تو اپنی قومی حمیت اور ایمانی غیرت سے کام لیجئے۔۔۔۔۔ ورنہ سنیئے! تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔۔۔۔ تمہیں عزیز الحق مرحوم رحمۃ اللہ علیہ کے اشعار جگاتے ہیں۔۔۔۔!۔

 دستِ قدرت نے بتا کب حسن کو عریاں کیا
ابر میں پانی، شرر کو سنگ میں پنہاں کیا
مشک کو نافے میں رکھا اور بوکوپھول میں
پھول کو کانٹے میں رکھ کر حفظ کا سامان کیا
درصدف میں، سیم و زر کو کان میں مخفی کیا
جب کبھی باہر نکالا در بدر حیران کیا
حسن کی ہر اک ادا جب اس طرح مستور تھی
حسنِ زن کو تو نے ظالم کس لئے عریاں کیا

وما علینا الّا البلاغ المبین
Read More >>

Friday, 2 February 2018


مطالعہ کی اہمیت



مطالعہ سے کیا ملتا ہے ؟ 



علامہ اقبال رحمہ اللہ کے مطابق 

 ۔۔۔مطالعہ انسان کے لئے اخلاق کا معیار ہے۔

امام غزالی رحمہ اللہ

 ۔۔۔ بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ ہے، اس لئے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔

حکیم ابو نصر فارابی رحمہ اللہ

 ۔۔۔ تیل کے لئے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا۔ 

ایڈیسن

 ۔۔۔ورزش سے جسم مضبوط ہوتا ہے اورمطالعے کی دماغ کے لئے وہی اہمیت ہے جو ورزش کی جسم کے لئے۔ 

بیکن

 ۔۔۔ مطالعہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے۔ 
۔۔۔مطالعہ کسی سے اختلاف کرنے یا فصیح زبان میں گفتگو کرنے کی غرض سے نہ کرو بلکہ ’’تولنے‘‘ اور’’سوچنے‘‘کی خاطر کرو۔ 
 ۔۔۔ مطالعے سے خلوت میں خوشی، تقریر میں زیبائش، ترتیب وتدوین میں استعداد اور تجربے میں وسعت پیدا ہوتی ہے۔ 


سمر سٹ ماہم

۔۔۔مطالعے کی عادت اختیار کرلینے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے گویا دنیا جہاں کے دکھوں سے بچنے کے لئے ایک محفوظ پناہ گاہ تیار کرلی ہے۔ 

چینی ضرب المثل

۔۔۔ تین دن بغیر مطالعہ گزار لینے کے بعد چوتھے روز گفتگو میں پھیکا پن آجاتا ہے۔

سسرو

۔۔۔انسان قدرتی مناظر اورکتابوں کے مطالعے سے بہت کچھ سیکھ سکتا ہے۔ 

وائٹی

 ۔۔۔ مطالعے کی بدولت ایک طرف تمہاری معلومات میں اضافہ ہوگا اوردوسری طرف تمہاری شخصیت دلچسپ بن جائے گی۔ 

تلسی داس

 ۔۔۔دماغ کے لئے مطالعے کی وہی اہمیت ہے جو کنول کے لئے پانی کی۔ 

ملٹن

۔۔۔جس طرح کئی قسم کے بیج کی کاشت کرنے سے زمین زرخیز ہو جاتی ہے، اسی طرح مختلف عنوانات پر کتابوں اوررسالوں وغیرہ کا مطالعہ انسان کے دماغ کو منور بنادیتا ہے۔ 

 ولیم جیمز

۔۔۔ جو نوجوان ایمانداری سے کچھ وقت مطالعے میں صرف کرتا ہے، تو اسے اپنے نتائج کے بارے میں بالکل متفکر نہ ہونا چاہئے۔ 

 میکالے

 ۔۔۔ وہ شخص نہایت ہی خوش نصیب ہے جس کو مطالعہ کا شوق ہے، لیکن جو فحش کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اس سے وہ شخص اچھا ہے جس کو مطالعہ کا شوق نہیں 

شیلے

۔۔۔ مطالعہ ذہن کو جلا دینے کے لئے اوراس کی ترقی کے لئے ضروری ہے۔ 

گاندھی جی

۔۔۔ دنیا میں ایک باعزت اورذی علم قوم بننے کے لئے مطالعہ ضروری ہے مطالعہ میں جو ہر انسانی کو اجاگر کرنے کا راز مضمر ہے۔ 

جیفر سن

 ۔۔۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ کتابوں کے مطالعے نے انسان کے مستقبل کو بنادیا ہے۔ 

سینکا

۔۔۔ تم مطالعہ اس لئے کرو کہ دل ودماغ کو عمدہ خیالات سے معمور کر سکونہ کہ اس طمع سے کہ تھیلیاں روپوں سے بھر پور ہوں۔ 





Mutalia ki ahmiyat or Afadiate in urdu


Read More >>

Tuesday, 30 January 2018


Happy Life


خوشگوار زندگی گزارنے کے چند اہم اصول


چند نصیحتیں خوشحال زندگی کی ضمانت

(1
 دن کا آغاز نماز فجر، اذکار اور توکل علی الله سے

(2
گناھوں سے مسلسل معافی مانگتے رھیں، گناہ بھی معاف، رزق میں بھی اضافہ ان شاء الله 

(3
دعا نہ چھوڑیں، یہ کامیابی کی کنجی ھے

(4
 یاد رکھیں زبان سے نکلے کلمات لکھے جارھے ھیں

(5
 سخت آندھیوں میں بھی امید کا دامن نہ چھوٹے

(6
انگلیوں کی خوبصورتی ان کے ذریعہ تسبیح کرنے میں ھے

(7
افکار اور غم کی کثرت میں کہیں ’’لا اله الا الله‘‘۔

(8
 روپے پیسے دے کر فقیروں اور مسکینوں کی دعا خرید لیں

(9
 خشوع اور اطمینان سے کیا گیا سجدہ زمین بھر سونے سے بھی بہتر ھے، اس کی قدر کریں

(10
زبان سے کوئی لفظ نکالتے ہوئے سوچیں اس کے اثرات کیا ہوں گے، ایک لفظ بعض اوقات مہلک ہو جاتا ھے

(11
مظلوم کی ’’بدعا‘‘ اور محروم کی ’’آہ‘‘ سے بچیں

(12
 اخبار و رسائل بینی سے پہلے کچھ تلاوتِ قرآن کر لیں

(13
آپ اپنی اصلاح کی فکر کریں آپ کا گھرانہ بھی آپ کے راستہ پر چلے گا

(14
 آپ کا نفس برائی کی طرف بلاتا ھے، اس کو نیکی میں لگا کر مقابلہ کریں

(15
والدین کی قدر کیجئے ان کو نعمت عظمی سمجھیں، رضائے الٰہی کا قریبی سبب ھے

(16
آپکے پرانے کپڑے غریبوں کے لیے نئے ہیں

(17
زندگی انتہائی مختصر ہے غصہ نہ کریں، کسی سے بغض نہ رکھیں، رشتہ داریوں اور تعلقات کو خراب نہ کریں

(18
 آپ کو سب سے زیادہ طاقت والے اور سب سے بڑے مالدار کا ساتھ حاصل ہے (یعنی الله سبحانہ و تعالیٰ کا) اس پر اعتماد کریں اور خوش رہیں 

(19
گناہوں سے اپنے لیے دعا کی قبولیت کا دروازہ بند نہ کریں 

(20
مصیبتوں، مشقتوں حتی کہ ذمہ داریوں کے نبھانے میں نماز آپکی مددگار ہے، اس کا سہارہ لیں

(21
بدگمانی سے بچیں، دوسروں کو بھی راحت پہنچائیں اور خود بھی راحت میں رہیں

(22
 تمام فکروں اور غموں کا سبب اپنے رب سے دوری ہے، اس دوری کو ختم کردیں

(23
 نماز کا اہتمام کریں، قبر میں یہی ساتھ جائے گی 

(24
 غیبت کریں نہ سنیں، کوئی کر رھا ہو تو اس کو بھی روکیں

(25
سورۃ الملک کی تلاوت نجات کا باعث ھے

(26
خشوع سے خالی نماز، آنسو سے خالی آنکھیں محرومی ہے، اس محرومی سے نکلیں 

(27
۔ دوسروں کو تکلیف دینے سے بہت بچیں

(28
تمام تر محبت الله ﷻ اور رسول الله ﷺ  کے لیے

اور مخلوق کے لیے اچھا اخلاق 

(29
 جو آپ کی غیبت کرے اس کو معاف کر دیں وہ تو خود اپنی نیکیاں آپ کی نذر کر رھا ھے 

(30
نماز، تلاوت اور ذکر چہرے کا نور، دل کا چین اور مزید نیک اعمال کی توفیق کا ذریعہ ھے

(31
 جو جہنم کی آگ یاد رکھے، گناہ سے بچنا اس کے لیے آسان ہو جائے گا

(32
جب رات ہمیشہ نہیں رہتی تو غم پریشانی کے بادل بھی چھٹ جائیں گے اور تنگی آسانی سے بدل جائے گی 

(33
 بحث مباحثہ چھوڑیئے

بڑے بڑے کام کرنے کو پڑے ھیں 

(34

 نماز اطمینان سے ادا کریں باقی سارے کام اس سے بہت کم اہمیت کے ہیں

(35
 قرآن تک ہر وقت رسائی رکھیں، ایک آیت کی تلاوت بھی دنیا و مافیہا سے بہتر ھے

(36
 زندگی کی خوبصورتی ایمان کے بغیر نہیں 

آخر مردہ یہ تمنا کیوں کرے گا کہ وہ واپس آ کر صدقہ کرے اس لیے کہ وہ صدقہ کا فائدہ دیکھ لے گا۔ صدقہ کریں، مومن قیامت کے دن اپنے صدقہ کے سائے میں ہو گا۔ 
بہت ممکن ہے پڑھنے والا لکھنے اور بھیجنے والے سے زیادہ عمل کر لے۔ ان شاء الله

جزاک الله خیرًا و احسن الجزا

Happy Life in Urdu

Khushgawar zindagi ke Aham Usool
Khushgawar zindagi kaise guzari jaye?
Zindagi main Khushi kaise Hasil key jaye?
Zindagi ke Asool
Khushgawar Zindagi Guzarne Ke Chand Aham Usool 

Read More >>

Monday, 29 January 2018


Qabar ki Pukar

ایک انتہائی توجہ طلب مسئلہ



میں نے گورکن بابا سے پوچھا باباجی کناہگاروں کی قبروں کا بھی کچھ احوال بتائیں، بابا جی افسردہ لہجے میں بولے، ایسے آدمی کی قبر تیار کرتے ہوئے بہت مشقت کرنا پڑتی ہے۔
قبر کی مٹی سخت ہوتی ہے تو کہیں پتھر قبر کی تیار میں رکاوٹ بن جاتے ہیں آج کل قبروں کی کھودائی کے دوران سانپ بچھو کا نکل آنا عام سی بات ہو گئی ہے، کئی قبروں کی کھودائی کرتے ہوئے عجیب سی وحشت اور گھبراہٹ طاری ہو جاتی ہے، چونکہ قبر کی کھودائی ننگے پائوں کی جاتی ہے کئی قبروں کی کھودائی میں میرے پیر جلنے شروع ہو گئے تھے، میں نے اپنی زندگی میں قبر کی تیاری کے دوران قبر سے دھواں بھی نکلتے دیکھا اور آگ کے شعلے بھی۔

کئی قبروں میں تدفین کے بعد قبروں پر رات کو آگ جلتی بھی دیکھی ہے اور کچھ قبروں سے چیخ و پکار بھی سن چکا ہوں۔

یہ باتیں باباجی میرے مختلف سوالوں کے جواب میں مجھے بتا رہے تھے، اور عالم تصور میں، میں اپنی قبر کی فکر میں گم ہو گیا کہ ناجانے میری قبر سے روشنی نکل کر گورکن کا وجود روشن کرے گی یا گورکن کے پیر جلاڈالے گی، اور پھر کیا خبر قبر بھی نصیب ہو کہ نہ ہو۔

دوستو! یہ میری، آپ کی فانی زندگی کی حقیقتیں ہیں جو میں آپ محسنو! کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں، میں نے زندگی کی رنگینیاں بھی دیکھی ہیں اور اندھیری راتوں میں قبرستانوں کے سناٹے بھی۔

قبر ہمارا وہ مستقل گھر ہے جس میں ہمارا ثور کے پھونکے جانے تک رہنا مقدر ٹھر چکا ہے۔

کبھی کبھی اپنے دلوں کو موہ لینے والے عارضی گھروں کو کچھ دیر کے لیے فراموش کر کے قبرستان میں جہاں میں اور آپ اپنی مستقل رہائش اختیار کرنے والے ہیں جا کر ان کے مکینوں کی رہائش گاہوں کو بھی دیکھ آیا کریں تاکہ اپنی رہائش گاہ کے پلاٹ کا بھی اندازہ ہو اور اس میں اپنی رہائش کے لیے خیالوں اور تصور میں تانے بانے بھی بنتے رہا کریں۔

میرے عزیزو ! قبرستان دنیا کی واحد انٹرنیشنل ہاؤسنگ سوسائٹی ہے۔ جس میں آپ کو دو گز کا پلاٹ بغیر ترقیاتی کاموں کے ملتا ہے، جہاں ہر فرد کو اپنے پلاٹ میں روشنی، کشادگی،، خوشگوار ہواؤں اور باغات وغیرہ کا انتظام پہلے سے خود کر کے آنا پڑتا ہے۔
لہٰذا کیا ہی اچھا ہو کہ جب میں اور آپ اپنے مستقل گھروں کو جائیں تو سارے انتظامات پہلے سے مکمل ہوں، اور کمی ہو تو صرف میری اور آپ کی آمد کی۔

اللہ ہم سب کی اس آنے والی منزل کو آسان بنائے۔ آمین



Azaab e Qabar in Urdu

Qabar ki Pukaar

Qabar Insan ko aik din main 5 dafa yaad karti hai

Azaab Qabar ki Haqeeqat


Read More >>

Sunday, 28 January 2018


Darhi Ki Ahmiyat Aur Kya Darhi Rakhna Sunnat Hai

داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ھے 


الحمد للہ:

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق احسن انداز میں کی ہے اور داڑھی کے ذریعے اسے زینت بخشی ہے،داڑھی جہاں اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، وہاں اسوۂ رسول بھی ہے، یہ جہاں انسان کا فطرتی حسن ہے، وہاں اللہ کی شریعت بھی ہے، داڑھی جہاں قومی زندگی کی علامت ہے ، وہاں اس کا صفایا مردنی کی دلیل بھی ہے، داڑھی جہاں شعارِ اسلام ہے وہاں محبت رسول ﷺ کا تقاضا بھی ہے ، داڑھی جہاں مرد کے لیے ظاہری حسن وجمال ہے ، وہاں اس کے باطن کی تطہیر کا سبب بھی ہے ،یہ تمام شریعتوں کا متفقہ اسلامی مسئلہ ہے،یہ اسلامی تہذیب ہے ، یہ وہ اسلامی وقار اور ہیبت ہے جس سے مرد و عورت کے درمیان تمیز ہوتی ہے ،نیز اس سے مردوں اور ہیجڑوں کے درمیان امتیاز ہوتا ہے، یہ وہ دینی روپ ہے جس سے سلف صالحین اور فساق و فجار کے درمیان فرق ہوتا ہے ،یہ ایک فطرتی طریقہ ہے جو دلیل کا محتاج نہیں ،نفسانی خواہشات،رسم و رواج اور ماحول سے مرعوب ہو کر اللہ تعالیٰ کی زینت کو بدنمائی میں تبدیل کرنا بزدلی ہے ، اس سے انسان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:

(أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ) [الجاثية :۲۳]

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا الہ و معبود بنا لیا ہو؟‘‘ کا مصداق ٹھہرتا ہے۔

داڑھی منڈانا با لاجماع حرام ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی معصیت اور اس کی نعمتوں کی ناقدری ہے ، اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہے، یہ اللہ کی تخلیق کے حسن و جمال کی تخریب کاری اور کفار سے مشابہت ہے۔

داڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کٹوا کر مشرکین کی مخالفت کرو 


۱ ۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ
’’مشرکوں کی مخالفت کرو ،یعنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔‘‘ (صحیح بخاری:۲؍۸۷۵،ح:۵۸۹۲،صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۵۹)

۲۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی روایت ان الفاظ میں بھی آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى
’’مونچھوں کو ختم کرو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔‘‘(صحیح بخاری:۲؍۸۷۵،ح:۵۸۹۳)

۳۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث ان الفاظ سے بھی مروی ہے:

خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَى
’’مشرکین کی مخالفت کرو،مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۵۴؍۲۵۹)

داڑھی رکھنا اور مونچھیں کاٹنا حکم رسول ﷺہے:

۴ ۔ یہ الفاظ بھی ہیں:

أَنَّهُ:أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ
’’آپﷺ نے مونچھیں کاٹنے اور داڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۵۳؍۲۵۹)

داڑھی بڑھا کر مجوسیوں کی مخالفت کرو


۵۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ
’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لٹکاؤ،مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۶۰)

امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے احادیث پر داڑھی کے وجوب کا باب قائم کیا ہے۔(صحیح ابی عوانہ:۱؍۱۳۴)

داڑھی منڈانا مجوسیوں کا کام ہے

۶۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّهُمْ يُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ
’’وہ مجوسی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈاتے ہیں،تم ان کی مخالفت کرو۔‘‘
(مصنف ابن ابي شيبه:۸؍۵۶۷۔۵۶۶،المعجم الاوسط للطبراني:۱۰۵۵۔۱۶۴۵،السنن الكبري للبيهقي:۱؍۱۵۱، شعب الايمان للبيهقي:۶۰۲۷،وسنده‘ صحيح)

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (۵۴۷۴) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اس کا راوی معقل بن عبیداللہ الجزری ’’موثق،حسن الحدیث‘‘ ہے،اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:بل هو عند الأكثرين صدوق لا بأس به ’’لیکن وہ اکثر محدثین کے نزدیک ’’صدوق، لا باس بہ‘‘ ہے۔‘‘
                                                                              (میزان الاعتدال للذہبی:۴؍۱۴۶)

شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی لکھتے ہیں: 

وقصها أي اللحية سنة المجوس وفيه تغيير خلق الله
’’داڑھی کو منڈانا مجوسیوں کا طریقہ اور تخلیقِ الٰہی میں تبدیلی ہے۔‘‘
                                                                (حجۃ اللہ البالغہ:۱؍۱۵۲)

داڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کٹوا کر یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرو


۷۔ سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ
ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول !اہلِ کتاب تو اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں،آپﷺ نے فرمایا:تم اپنی مونچھیں کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔‘‘
                                       (مسند الامام احمد:۵؍۲۶۴۔۲۶۵،وسندہ حسن)

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
                                                           (فتح الباری:۱۰؍۳۵۴)

داڑھی فطرت اسلام ہے 


سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ ” قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ
’’دس خصلتیں فطرتِ اسلامیہ میں سے ہیں: (۱) مونچھیں کاٹنا،(۲) داڑھی کو چھوڑ دینا ،(۳) مسواک کرنا، (۴) وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانا، (۵) ناخن کاٹنا، (۶) انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، (۷) بغل کے بال نوچنا، (۸) زیرِ ناف بال مونڈنا، (۹) استنجاء کرنا، راوی کا کہنا ہے کہ دسویں چیز مجھے بھول گئی ہے ،شاید کلی کرنا ہو۔‘‘
                                                      (صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۶۱)

داڑھی شعارِ اسلام ہے 


سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا، إِذْ جَاءَ شَدِيدُ سَوَادِ اللِّحْيَةِ
’’ایک دن نبی کریمﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کی داڑھی گہری سیاہ تھی۔۔۔۔اس کے چلے جانے کے بعد نبیﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟ عرض کی، نہیں!فرمایا:ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ ۔ ’’وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
                                      (صحیح ابن حبان:۱۶۸،وسندہ صحیح)

رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک 


۱۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ - 

رسول اللہ ﷺ کے سر کے اگلے بال اور داڑھی کے ( کچھ) بال سفید ہوگئے تھے،جب آپﷺ تیل لگاتے تو وہ سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی اور جب بال بکھرے ہوئے ہوتے تھے تو سفیدی ظاہر ہوتی تھی ، وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ ۔ آپکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی ،ایک شخص نے کہا کہ آپ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا؟انہوں نے کہا، نہیں!بلکہ سورج اور چاند کی طرح تھا ،آپ کا چہرہ گول تھا،میں نے آپ کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہرِ نبوت دیکھی، جس کا رنگ جسم مبارک کے رنگ کے مشابہ تھا۔ 
                                                                          (صحیح مسلم:۲۳۴۴)

۲۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ
’’رسول اللہ ﷺ کا قد مبارک نہ بڑا تھا نہ چھوٹا ، آپ کا سر مبارک بڑا اور داڑھی مبارک بھی بڑی تھی۔‘‘
                                                            (مسند الامام احمد :۱؍۹۶،۱۲۷،وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۲؍۶۰۲) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اس کے راوی عثمان بن مسلم بن ہُر مُز کو امام ابن حبان نے ’’ثقہ‘‘ کہا ہے، امام حاکم نے اس کی حدیث کی سند کی ’’تصحیح‘‘ کی ہے،یہ بھی توثیق ہے ،لہٰذا امام نسائی رحمہ اللہ کی جرح مردود ہے۔

۳۔ ہشام بن حبیش بن خویلد سے روایت ہے کہ :

امِّ معبد کہتی ہیں : وفي لحيته كثاثة
’’نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔‘‘ 
                                            (المستدرک للحاکم :۳؍۹،۱۱،وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

۴۔ یزید الفارسی کہتے ہیں کہ :

میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا تو اس کا ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کیا ،آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے،’’شیطان میری مشابہت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ،جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا ،اس نے مجھے ہی دیکھا‘‘ تو اس شخص کی صفت بیان کرسکتا ہے ،جس کو تو نے خواب میں دیکھا ہے ؟کہا ،ہاں! درمیانے قد والا،گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل ،آنکھیں بڑی بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہوا ہو ،خوبصو رت مسکراہٹ اور شکل، گول چہرہ قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ قَدْ مَلَأَتْ نحرہ داڑھی جو سینے کو بھرے ہوئے تھی ،ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ،اگر تو جاگتے ہوئے آپ ﷺ کو دیکھتا تو ان صفات کے سوا اور صفات بیان نہیں کر سکتا تھا ۔‘‘

(طبقات ابن سعد:۱؍۴۱۷،مصنف ابن ابی شیبہ:۱۱؍۵۱۵،۵۶،مسند ابن ابی شیبہ: (الاتحاف:۸۵۰۷)،مسند الامام احمد:۱؍۳۶۲۔۳۶۱،مسند ابی یعلیٰ: (الاتحاف:۵۸۰۸) الشمائل للترمذی:۳۹۳،ابن عساکر(السیرۃ النبویۃ:۱؍۲۳۰۔۲۲۹)،وسندہ حسن)

اس کا روای یزید الفارسی ’حسن الحدیث‘ ہے،اس کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:لا بأس به ’’ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل:۹؍۲۹۴)
امام ترمذی رحمہ اللہ (۳۰۸۶) ،امام ابن حبان رحمہ اللہ (۴۳) اور امام حاکم رحمہ اللہ ۲؍۲۲۱،۳۳۰) نے اس کی ایک حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے ،یہ اس کی ’’توثیق‘‘ ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :رجاله ثقات 
’’اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد:۸؍۲۷۲)

صحابہ کرام کی داڑھیاں 


کسی صحابئ رسول سے داڑھی منڈانا قطعی طور پر ثابت نہیں ہے، بلکہ وہ داڑھیاں رکھتے تھے ،جیسا کہ شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:

” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”

’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو بڑھاتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘ 

(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)​

حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : واسناده جيد ’’اس کی سند جید ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۷)

فائدہ :

حافظ ابن قیّم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:


وأما شعر اللحية ففيه منافع منها الزينة والوقار والهيبة ولهذا لا يرى على الصبيان والنساء من الهيبة والوقار ما يرى على ذوي اللحى ومنها التمييز بين الرجال والنساء

’’داڑھی کے کئی فوائد ہیں،مثلاً اس میں مرد کی زینت ہے اور اس کا وقار اور تعظیم ہے ،اس سے اس کی ہیبت ظاہر ہوتی ہے ،اس لیے بچوں اور عورتوں میں وہ ہیبت اور وقار دکھائی نہیں دیتا جو داڑھی والے مردوں میں موجود ہوتا ہے، نیز داڑھی سے مرد اور عورت کے درمیان فرق اور پہچان ہوتی ہے۔‘‘(التبیان فی اقسام القرآن:ص۲۳۱)

سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا
’’نبی کریم ﷺ داڑھی کو طول و عرض سے کاٹتے تھے۔‘‘ (جامع الترمذی :۲۷۶۲،شعب الایمان للبیہقی:۶۰۱۹)

تبصرہ 


اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے،اس کے راوی عمر بن ہارو ن بلخی کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل :۶؍۱۴۱،وسندہ صحیح) نے ’’کذاب‘‘،امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل:۶؍۱۴۱) نے ’’ضعیف الحدیث‘‘، امام نسائی رحمہ اللہ (الکامل لا بن عدی:۵؍۳۰) نے ’’متروک الحدیث‘‘اور امام دارقطنی رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروکین:۳۶۸) نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’یہ متروک ہے‘‘۔ (التقریب:۴۹۷۹)

حافظ منذری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:ضعفه الجمهور. ’’اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ (الترغیب والترہیب:۴؍۴۹۴)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:وقد ضعفه أكثرا لناس.’’اسے اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۱؍۲۷۳)
نیز کہتے ہیں: والغالب عليه الضعف ، وأثني عليه ان مهدي وغيره، ولكن ضعفه جماعةكثيرة.
’’اس پر ضعف غالب ہے ،امام ابن ِ مہدی وغیرہ نے اس کی تعریف کی ہے، لیکن اسے زیادہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۲؍۱۹۸) اس پر ابن مہدی کی تعریف ثابت نہیں ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس حدیث پر جرح نقل کی ہے۔ (جامع ترمذی: تحت حدیث:۲۷۶۲)
حافظ ابن الجوزی لکھتے ہیں: هذا الحديث لا يثبت عن رسول الله صلي الله عليه وسلم
’’یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔‘‘(العلل المتناہیۃ:۲؍۱۹۷)
لہٰذا انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب
(فیض الباری: ۴؍۳۸۰) کا اس کے راویوں کو ’’ثقہ‘‘ قرار دینا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔

جابر عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مُجَفَّلٌ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ فَقَالَ: ” عَلَى مَا شَوَّهَ أَحَدُكُمْ أَمْسِ؟ ” قَالَ: وَأَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى لِحْيَتِهِ وَرَأْسِهِ يَقُولُ: ” خُذْ مِنْ لِحْيَتِكَ وَرَأْسِكَ ”

’’نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا ،اس کا سر ور داڑھی پراگندہ تھی ،آپ نے فرمایا،کیوں تم میں سے کوئی ایک اپنے آپ کو بدنما بناتا ہے،آپ نے اپنی داڑھی اور سر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا،اپنی داڑھی اور سر کے بالوں سے کاٹ۔‘‘

(شعب الایمان للبیہقی:۶۰۲۰)
تبصرہ:

اس کی سند سخت ترین’’ضعیف‘‘ ہے ،اس میں ابو مالک عبد الملک بن الحسین النخعی ’’متروک‘‘ راوی ہے۔
(تقریب التہذیب:۸۳۳۷)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:رواه الطبراني في الأوسط عن شيخه موسي بن زكريّا التّستريّ وهو ضعيف.
اسے طبرانی نے اپنے شیخ موسیٰ بن زکریا تستری سے بیان کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۴)

اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو سنت کے مطابق داڑھی رکھنے کی توفیق دے -

آمین یا رب العالمین​

 واللہ اعلم 







Islam Mein Darhi ki Shari Haisiyat kiya hai?

Darhi ki Ahmiyat Aur Kya Darhi Rakhna Sunnat hai.

Darhi ka Masla in Urdu.

Darhi Kitni Honi chahiye.

Hadees about Darhi in urdu.

Sahaba karam ki darhiyan.

Rasool ullah Sallallahu Alaihi Wasallam ki Darhi.


Read More >>

Saturday, 27 January 2018





سکون قلب


نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرھیم
‘‘اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝۲۸ۭ’’[الرعد: 28]۔
صدق اللہ العظیم

وقال النبیﷺ ’’مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ‘‘ (اوکما قال علیہ السلام)۔

نہیں ہے ابتداء تیری ، نہیں ہے انتہا تیری
عبادت کر رہے ہیں روز شب ارض و سماء تیری
حجر میں، پھول میں، کانٹو میں، ذروں میں فضاؤں میں
نظر آتی ہے ہر سو شاہدِ مطلق ادا تیری
تیری تسبیح  پڑتے ہیں فلک والے، زمیں والے
ہو کی سرسراہٹ میں بھی ہے حمد و ثنا تیری

محترم سامعین کرام

السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج میں آپ حضرات کے سامنے ’’سکون قلب‘‘ کے عنوان کا سہارا لے کر چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سامعین کرام


آج دنیا میں ہر انسان سکون قلب کا متلاشی ہے ہر نوع انسانی اس جستجو اور سعی میں ہے کہ سکی طرح اس کو ’’سکون قلب‘‘  حاصل ہو جائے۔ چنانچہ 
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔ خوبصورت عمارتوں اور بنگلوں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بینک بیلنس کی بہتات میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مال و دولت کی کثرت میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدارت وزارت میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تجارت و زراعت میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زرق برق کپڑوں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نرم گداز بستروں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نت نئے فیشنوں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  سونا چاندی کے چمک دمک میں تلاش کیا

لیکن رب کائنات فرماتے ہیں! ارے سکون قلب کے متلاشیو! کہاں بھٹکتے پر رہے ہو ۔۔۔۔ سنو سنو! ’’اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝‘‘ میں نے تو دل کا چین اور سکون اپنی یاد اور ذکر میں رکھا ہے، اگر سکون قلب چاہتے ہو تو مجھ سے دل لگا ؤ۔

شاعر نے کیا خوب کہا ۔۔۔۔۔۔

نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے

سامعین محترم

حضرت ابوبکر ورّاق رحمہ اللہ تعالیٰ بڑے پائے کے بزرگ گزرے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ قبل پر چھ ۶ قسم کی حالتیں وارد ہوتی ہیں ۔ یعنی حیات اور موت ۔۔۔۔ صحت اور بیمار۔۔۔۔۔ بیداری اور نیند۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابوبکر ورّاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قلب کی حیات ہدایت ہے۔۔۔ اگر ہدایت ہو گئی ہے تو سمجھ لیں کہ دل زندہ ہے۔۔۔۔ اور قلب کی موت گمراہی و صلالت ہے۔۔۔۔ اگر کسی قسم کی دل میں گمراہی پدیا ہو جائے تو سمجھ لیں کہ دل مردہ ہے۔۔۔ اور قلب کی صحت، طہارت اور صفائی ہے۔۔۔ اور اس طہارت کا حصول ایمان اور توحید کی بدولت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور اس کے مقابلے میں بیماری گندے تعلقات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔۔۔۔ اور دل کی بیداری، ذکر الٰہی میں ہے۔۔۔۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے اس کا دل بیدار ہوتا ہے۔


حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔


مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَایَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتت 

اللہ تعالیٰ کے ذکر کرنے والے کی مثال اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہے تو سمجھ لو کہ اس کے دل پر غفلت کی نیند 

میرے مدنی آقا ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔ تمہارے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔۔۔۔ سنو ! اور وہ دل ہے۔

حاضرین گرامی

للہ تعالیٰ کے ذکر کرنے سے دل کو جو برکت، لذت، حلاوت ، طہارت اور سرور و طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ کسی ایسے شخص سے مخفی نہیں جو کچھ دن اس پاک نام کی رٹ لگا چکا ہو اور ایک زمانہ تک اس کو حرز جان بنا چکا ہو۔
 ایسا آخر کیوں نہ ہوں خود خالق قلب کا فرمان ہے۔ اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝ 
یعنی دلوں کو راحت صرف اور صرف میری یاد سے حاصل ہوگا۔
 اس دعا کے ساتھ میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ تمام حضرات سے گذارش ہے کہ ’’آمین‘‘ ضرور کہئے گا۔

اللہ وہ دل دے کہ تیرے عشق کا گھر ہو
دائمی رحمت کی تیری اس پہ نظر ہو
دل دے کہ تیرے عشق میں یہ حال ہو اس کا
محشر کا اگر شور ہو، تو نہ خبر ہو






Sukoon e Dil in Urdu
Sakoon e Dill Shayari
Sokoon e Qalb or Rahat e Dil
Peace of Hart.

Read More >>


Copyright © 2016 - Ilm o Adab - All Rights Reserved
(Articles Cannot Be Reproduced Without Author Permission.)
| Powered By: Islamic Stories