Latest: Add Latest Article Here | Recommended: Add Recommended Article Here

Ilm o Adab website you have Seerat un Nabi PBUH, Quotes of the Day, Azkar e Masnoona, Stories, Model Speech like waldain ki azmat and much more.


Sunday, 28 January 2018


Darhi Ki Ahmiyat Aur Kya Darhi Rakhna Sunnat Hai

داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ھے 


الحمد للہ:

اللہ تعالیٰ نے انسان کی تخلیق احسن انداز میں کی ہے اور داڑھی کے ذریعے اسے زینت بخشی ہے،داڑھی جہاں اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، وہاں اسوۂ رسول بھی ہے، یہ جہاں انسان کا فطرتی حسن ہے، وہاں اللہ کی شریعت بھی ہے، داڑھی جہاں قومی زندگی کی علامت ہے ، وہاں اس کا صفایا مردنی کی دلیل بھی ہے، داڑھی جہاں شعارِ اسلام ہے وہاں محبت رسول ﷺ کا تقاضا بھی ہے ، داڑھی جہاں مرد کے لیے ظاہری حسن وجمال ہے ، وہاں اس کے باطن کی تطہیر کا سبب بھی ہے ،یہ تمام شریعتوں کا متفقہ اسلامی مسئلہ ہے،یہ اسلامی تہذیب ہے ، یہ وہ اسلامی وقار اور ہیبت ہے جس سے مرد و عورت کے درمیان تمیز ہوتی ہے ،نیز اس سے مردوں اور ہیجڑوں کے درمیان امتیاز ہوتا ہے، یہ وہ دینی روپ ہے جس سے سلف صالحین اور فساق و فجار کے درمیان فرق ہوتا ہے ،یہ ایک فطرتی طریقہ ہے جو دلیل کا محتاج نہیں ،نفسانی خواہشات،رسم و رواج اور ماحول سے مرعوب ہو کر اللہ تعالیٰ کی زینت کو بدنمائی میں تبدیل کرنا بزدلی ہے ، اس سے انسان اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:

(أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوَاهُ) [الجاثية :۲۳]

’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات کو اپنا الہ و معبود بنا لیا ہو؟‘‘ کا مصداق ٹھہرتا ہے۔

داڑھی منڈانا با لاجماع حرام ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی معصیت اور اس کی نعمتوں کی ناقدری ہے ، اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کی مخالفت ہے، یہ اللہ کی تخلیق کے حسن و جمال کی تخریب کاری اور کفار سے مشابہت ہے۔

داڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کٹوا کر مشرکین کی مخالفت کرو 


۱ ۔سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

خَالِفُوا المُشْرِكِينَ: وَفِّرُوا اللِّحَى، وَأَحْفُوا الشَّوَارِبَ
’’مشرکوں کی مخالفت کرو ،یعنی داڑھیوں کو بڑھاؤ اور مونچھوں کو کاٹو۔‘‘ (صحیح بخاری:۲؍۸۷۵،ح:۵۸۹۲،صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۵۹)

۲۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی روایت ان الفاظ میں بھی آتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

انْهَكُوا الشَّوَارِبَ، وَأَعْفُوا اللِّحَى
’’مونچھوں کو ختم کرو اور داڑھیوں کو بڑھاؤ۔‘‘(صحیح بخاری:۲؍۸۷۵،ح:۵۸۹۳)

۳۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی حدیث ان الفاظ سے بھی مروی ہے:

خَالِفُوا الْمُشْرِكِينَ أَحْفُوا الشَّوَارِبَ، وَأَوْفُوا اللِّحَى
’’مشرکین کی مخالفت کرو،مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۵۴؍۲۵۹)

داڑھی رکھنا اور مونچھیں کاٹنا حکم رسول ﷺہے:

۴ ۔ یہ الفاظ بھی ہیں:

أَنَّهُ:أَمَرَ بِإِحْفَاءِ الشَّوَارِبِ، وَإِعْفَاءِ اللِّحْيَةِ
’’آپﷺ نے مونچھیں کاٹنے اور داڑھیاں بڑھانے کا حکم دیا۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۵۳؍۲۵۹)

داڑھی بڑھا کر مجوسیوں کی مخالفت کرو


۵۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جُزُّوا الشَّوَارِبَ، وَأَرْخُوا اللِّحَى خَالِفُوا الْمَجُوسَ
’’مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں لٹکاؤ،مجوسیوں کی مخالفت کرو۔‘‘(صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۶۰)

امام ابوعوانہ رحمہ اللہ نے احادیث پر داڑھی کے وجوب کا باب قائم کیا ہے۔(صحیح ابی عوانہ:۱؍۱۳۴)

داڑھی منڈانا مجوسیوں کا کام ہے

۶۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا:

إِنَّهُمْ يُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ، وَيَحْلِقُونَ لِحَاهُمْ، فَخَالِفُوهُمْ
’’وہ مجوسی مونچھیں بڑھاتے اور داڑھیاں منڈاتے ہیں،تم ان کی مخالفت کرو۔‘‘
(مصنف ابن ابي شيبه:۸؍۵۶۷۔۵۶۶،المعجم الاوسط للطبراني:۱۰۵۵۔۱۶۴۵،السنن الكبري للبيهقي:۱؍۱۵۱، شعب الايمان للبيهقي:۶۰۲۷،وسنده‘ صحيح)

اس حدیث کو امام ابن حبان رحمہ اللہ (۵۴۷۴) نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

اس کا راوی معقل بن عبیداللہ الجزری ’’موثق،حسن الحدیث‘‘ ہے،اس کے بارے میں حافظ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:بل هو عند الأكثرين صدوق لا بأس به ’’لیکن وہ اکثر محدثین کے نزدیک ’’صدوق، لا باس بہ‘‘ ہے۔‘‘
                                                                              (میزان الاعتدال للذہبی:۴؍۱۴۶)

شاہ ولی اللہ الدہلوی الحنفی لکھتے ہیں: 

وقصها أي اللحية سنة المجوس وفيه تغيير خلق الله
’’داڑھی کو منڈانا مجوسیوں کا طریقہ اور تخلیقِ الٰہی میں تبدیلی ہے۔‘‘
                                                                (حجۃ اللہ البالغہ:۱؍۱۵۲)

داڑھی بڑھا کر اور مونچھیں کٹوا کر یہود ونصاریٰ کی مخالفت کرو


۷۔ سیدنا ابو امامہ الباہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللهِ إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ. قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ” قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ
ہم نے عرض کی ،اے اللہ کے رسول !اہلِ کتاب تو اپنی داڑھیاں کٹواتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں،آپﷺ نے فرمایا:تم اپنی مونچھیں کٹواؤ اور داڑھیاں بڑھاؤ اور اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔‘‘
                                       (مسند الامام احمد:۵؍۲۶۴۔۲۶۵،وسندہ حسن)

حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو ’’حسن‘‘ کہا ہے۔
                                                           (فتح الباری:۱۰؍۳۵۴)

داڑھی فطرت اسلام ہے 


سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

عَشْرٌ مِنَ الْفِطْرَةِ: قَصُّ الشَّارِبِ، وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَالسِّوَاكُ، وَاسْتِنْشَاقُ الْمَاءِ، وَقَصُّ الْأَظْفَارِ، وَغَسْلُ الْبَرَاجِمِ، وَنَتْفُ الْإِبِطِ، وَحَلْقُ الْعَانَةِ، وَانْتِقَاصُ الْمَاءِ ” قَالَ زَكَرِيَّا: قَالَ مُصْعَبٌ: وَنَسِيتُ الْعَاشِرَةَ إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْمَضْمَضَةَ
’’دس خصلتیں فطرتِ اسلامیہ میں سے ہیں: (۱) مونچھیں کاٹنا،(۲) داڑھی کو چھوڑ دینا ،(۳) مسواک کرنا، (۴) وضو کرتے وقت ناک میں پانی چڑھانا، (۵) ناخن کاٹنا، (۶) انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، (۷) بغل کے بال نوچنا، (۸) زیرِ ناف بال مونڈنا، (۹) استنجاء کرنا، راوی کا کہنا ہے کہ دسویں چیز مجھے بھول گئی ہے ،شاید کلی کرنا ہو۔‘‘
                                                      (صحیح مسلم:۱؍۱۲۹،ح:۲۶۱)

داڑھی شعارِ اسلام ہے 


سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ جَالِسًا، إِذْ جَاءَ شَدِيدُ سَوَادِ اللِّحْيَةِ
’’ایک دن نبی کریمﷺ بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا جس کی داڑھی گہری سیاہ تھی۔۔۔۔اس کے چلے جانے کے بعد نبیﷺ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا ،کیا آپ کو معلوم ہے کہ وہ شخص کون تھا ؟ عرض کی، نہیں!فرمایا:ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ ۔ ’’وہ جبریل تھے جو تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے تھے۔‘‘
                                      (صحیح ابن حبان:۱۶۸،وسندہ صحیح)

رسول اللہ ﷺ کی داڑھی مبارک 


۱۔ سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ - 

رسول اللہ ﷺ کے سر کے اگلے بال اور داڑھی کے ( کچھ) بال سفید ہوگئے تھے،جب آپﷺ تیل لگاتے تو وہ سفیدی معلوم نہیں ہوتی تھی اور جب بال بکھرے ہوئے ہوتے تھے تو سفیدی ظاہر ہوتی تھی ، وَكَانَ كَثِيرَ شَعْرِ اللِّحْيَةِ ۔ آپکی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی ،ایک شخص نے کہا کہ آپ کا چہرہ تلوار کی طرح تھا؟انہوں نے کہا، نہیں!بلکہ سورج اور چاند کی طرح تھا ،آپ کا چہرہ گول تھا،میں نے آپ کے کندھے کے پاس کبوتر کے انڈے کے برابر مہرِ نبوت دیکھی، جس کا رنگ جسم مبارک کے رنگ کے مشابہ تھا۔ 
                                                                          (صحیح مسلم:۲۳۴۴)

۲۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ بِالطَّوِيلِ وَلا بِالْقَصِيرِ، ضَخْمُ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ
’’رسول اللہ ﷺ کا قد مبارک نہ بڑا تھا نہ چھوٹا ، آپ کا سر مبارک بڑا اور داڑھی مبارک بھی بڑی تھی۔‘‘
                                                            (مسند الامام احمد :۱؍۹۶،۱۲۷،وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ (۲؍۶۰۲) نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔
اس کے راوی عثمان بن مسلم بن ہُر مُز کو امام ابن حبان نے ’’ثقہ‘‘ کہا ہے، امام حاکم نے اس کی حدیث کی سند کی ’’تصحیح‘‘ کی ہے،یہ بھی توثیق ہے ،لہٰذا امام نسائی رحمہ اللہ کی جرح مردود ہے۔

۳۔ ہشام بن حبیش بن خویلد سے روایت ہے کہ :

امِّ معبد کہتی ہیں : وفي لحيته كثاثة
’’نبی کریم ﷺ کی داڑھی مبارک گھنی تھی ۔‘‘ 
                                            (المستدرک للحاکم :۳؍۹،۱۱،وسندہ حسن)

اس حدیث کو امام حاکم رحمہ اللہ نے ’’صحیح الاسناد‘‘ اور حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔

۴۔ یزید الفارسی کہتے ہیں کہ :

میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں رسول اللہ ﷺ کو خواب میں دیکھا تو اس کا ذکر ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کیا ،آپ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے،’’شیطان میری مشابہت اختیار کرنے کی طاقت نہیں رکھتا ،جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا ،اس نے مجھے ہی دیکھا‘‘ تو اس شخص کی صفت بیان کرسکتا ہے ،جس کو تو نے خواب میں دیکھا ہے ؟کہا ،ہاں! درمیانے قد والا،گندمی رنگ سفیدی کی طرف مائل ،آنکھیں بڑی بڑی گویا کہ سرمہ ڈالا ہوا ہو ،خوبصو رت مسکراہٹ اور شکل، گول چہرہ قَدْ مَلَأَتْ لِحْيَتُهُ، مِنْ هَذِهِ إِلَى هَذِهِ قَدْ مَلَأَتْ نحرہ داڑھی جو سینے کو بھرے ہوئے تھی ،ابن عباس رضی اللہ عنہ فرمانے لگے ،اگر تو جاگتے ہوئے آپ ﷺ کو دیکھتا تو ان صفات کے سوا اور صفات بیان نہیں کر سکتا تھا ۔‘‘

(طبقات ابن سعد:۱؍۴۱۷،مصنف ابن ابی شیبہ:۱۱؍۵۱۵،۵۶،مسند ابن ابی شیبہ: (الاتحاف:۸۵۰۷)،مسند الامام احمد:۱؍۳۶۲۔۳۶۱،مسند ابی یعلیٰ: (الاتحاف:۵۸۰۸) الشمائل للترمذی:۳۹۳،ابن عساکر(السیرۃ النبویۃ:۱؍۲۳۰۔۲۲۹)،وسندہ حسن)

اس کا روای یزید الفارسی ’حسن الحدیث‘ ہے،اس کے بارے میں امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:لا بأس به ’’ اس میں کوئی حرج نہیں۔‘‘ (الجرح والتعدیل:۹؍۲۹۴)
امام ترمذی رحمہ اللہ (۳۰۸۶) ،امام ابن حبان رحمہ اللہ (۴۳) اور امام حاکم رحمہ اللہ ۲؍۲۲۱،۳۳۰) نے اس کی ایک حدیث کو ’’صحیح‘‘ کہا ہے ،یہ اس کی ’’توثیق‘‘ ہے۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔
حافظ ہیثمی اس روایت کے بارے میں لکھتے ہیں :رجاله ثقات 
’’اس کے راوی ثقہ ہیں۔‘‘(مجمع الزوائد:۸؍۲۷۲)

صحابہ کرام کی داڑھیاں 


کسی صحابئ رسول سے داڑھی منڈانا قطعی طور پر ثابت نہیں ہے، بلکہ وہ داڑھیاں رکھتے تھے ،جیسا کہ شرجیل بن مسلم بیان کرتے ہیں:

” رَأَيْتُ خَمْسَةً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُمُّونَ شَوَارِبَهُمْ وَيُعْفُونَ لِحَاهُمْ وَيَصُرُّونَهَا: أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ، وَالْحَجَّاجَ بْنَ عَامِرٍ الثُّمَالِيَّ، وَالْمِقْدَامَ بْنَ مَعْدِيكَرِبَ، وَعَبْدَ اللهِ بْنَ بُسْرٍ الْمَازِنِيَّ، وَعُتْبَةَ بْنَ عَبْدٍ السُّلَمِيَّ، كَانُوا يَقُمُّونَ مَعَ طَرَفِ الشَّفَةِ ”

’’ میں نے پانچ صحابہ کرام کو دیکھا کہ وہ مونچھوں کو کاٹتے تھے اور داڑھیوں کو بڑھاتے تھے اور ان کو رنگتے تھے ،سیدنا ابو امامہ الباہلی،سیدنا حجاج بن عامر الشمالی،سیدنا معدام بن معدی کرب،سیدنا عبداللہ بن بسر المازنی،سیدنا عتبہ بن عبد السلمی،وہ سب ہونٹ کے کنارے سے مونچھیں کاٹتے تھے۔‘‘ 

(المعجم الکبیر للطبرانی:۱۲،۳۲۱۸؍۲۶۲،مسند الشامین للطبرانی:۵۴۰،وسندہ حسن)​

حافظ ہیثمی فرماتے ہیں : واسناده جيد ’’اس کی سند جید ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۷)

فائدہ :

حافظ ابن قیّم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:


وأما شعر اللحية ففيه منافع منها الزينة والوقار والهيبة ولهذا لا يرى على الصبيان والنساء من الهيبة والوقار ما يرى على ذوي اللحى ومنها التمييز بين الرجال والنساء

’’داڑھی کے کئی فوائد ہیں،مثلاً اس میں مرد کی زینت ہے اور اس کا وقار اور تعظیم ہے ،اس سے اس کی ہیبت ظاہر ہوتی ہے ،اس لیے بچوں اور عورتوں میں وہ ہیبت اور وقار دکھائی نہیں دیتا جو داڑھی والے مردوں میں موجود ہوتا ہے، نیز داڑھی سے مرد اور عورت کے درمیان فرق اور پہچان ہوتی ہے۔‘‘(التبیان فی اقسام القرآن:ص۲۳۱)

سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْخُذُ مِنْ لِحْيَتِهِ مِنْ عَرْضِهَا وَطُولِهَا
’’نبی کریم ﷺ داڑھی کو طول و عرض سے کاٹتے تھے۔‘‘ (جامع الترمذی :۲۷۶۲،شعب الایمان للبیہقی:۶۰۱۹)

تبصرہ 


اس کی سند سخت ترین ’’ضعیف‘‘ ہے،اس کے راوی عمر بن ہارو ن بلخی کو امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل :۶؍۱۴۱،وسندہ صحیح) نے ’’کذاب‘‘،امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ (الجرح والتعدیل:۶؍۱۴۱) نے ’’ضعیف الحدیث‘‘، امام نسائی رحمہ اللہ (الکامل لا بن عدی:۵؍۳۰) نے ’’متروک الحدیث‘‘اور امام دارقطنی رحمہ اللہ (الضعفاء والمتروکین:۳۶۸) نے ’’ضعیف‘‘ کہا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’یہ متروک ہے‘‘۔ (التقریب:۴۹۷۹)

حافظ منذری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:ضعفه الجمهور. ’’اسے جمہور نے ضعیف کہا ہے۔‘‘ (الترغیب والترہیب:۴؍۴۹۴)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:وقد ضعفه أكثرا لناس.’’اسے اکثر محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۱؍۲۷۳)
نیز کہتے ہیں: والغالب عليه الضعف ، وأثني عليه ان مهدي وغيره، ولكن ضعفه جماعةكثيرة.
’’اس پر ضعف غالب ہے ،امام ابن ِ مہدی وغیرہ نے اس کی تعریف کی ہے، لیکن اسے زیادہ محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۲؍۱۹۸) اس پر ابن مہدی کی تعریف ثابت نہیں ہے۔

امام ترمذی رحمہ اللہ امام بخاری رحمہ اللہ کی اس حدیث پر جرح نقل کی ہے۔ (جامع ترمذی: تحت حدیث:۲۷۶۲)
حافظ ابن الجوزی لکھتے ہیں: هذا الحديث لا يثبت عن رسول الله صلي الله عليه وسلم
’’یہ حدیث رسول اللہ ﷺ سے ثابت نہیں۔‘‘(العلل المتناہیۃ:۲؍۱۹۷)
لہٰذا انور شاہ کشمیری دیوبندی صاحب
(فیض الباری: ۴؍۳۸۰) کا اس کے راویوں کو ’’ثقہ‘‘ قرار دینا کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔

جابر عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:

رَأَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مُجَفَّلٌ الرَّأْسِ وَاللِّحْيَةِ فَقَالَ: ” عَلَى مَا شَوَّهَ أَحَدُكُمْ أَمْسِ؟ ” قَالَ: وَأَشَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى لِحْيَتِهِ وَرَأْسِهِ يَقُولُ: ” خُذْ مِنْ لِحْيَتِكَ وَرَأْسِكَ ”

’’نبی اکرم ﷺ نے ایک آدمی کو دیکھا ،اس کا سر ور داڑھی پراگندہ تھی ،آپ نے فرمایا،کیوں تم میں سے کوئی ایک اپنے آپ کو بدنما بناتا ہے،آپ نے اپنی داڑھی اور سر مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا،اپنی داڑھی اور سر کے بالوں سے کاٹ۔‘‘

(شعب الایمان للبیہقی:۶۰۲۰)
تبصرہ:

اس کی سند سخت ترین’’ضعیف‘‘ ہے ،اس میں ابو مالک عبد الملک بن الحسین النخعی ’’متروک‘‘ راوی ہے۔
(تقریب التہذیب:۸۳۳۷)
حافظ ہیثمی کہتے ہیں:رواه الطبراني في الأوسط عن شيخه موسي بن زكريّا التّستريّ وهو ضعيف.
اسے طبرانی نے اپنے شیخ موسیٰ بن زکریا تستری سے بیان کیا ہے اور وہ ضعیف ہے۔‘‘(مجمع الزوائد:۵؍۱۶۴)

اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو سنت کے مطابق داڑھی رکھنے کی توفیق دے -

آمین یا رب العالمین​

 واللہ اعلم 







Islam Mein Darhi ki Shari Haisiyat kiya hai?

Darhi ki Ahmiyat Aur Kya Darhi Rakhna Sunnat hai.

Darhi ka Masla in Urdu.

Darhi Kitni Honi chahiye.

Hadees about Darhi in urdu.

Sahaba karam ki darhiyan.

Rasool ullah Sallallahu Alaihi Wasallam ki Darhi.


Read More >>

Saturday, 27 January 2018





سکون قلب


نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرھیم
‘‘اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝۲۸ۭ’’[الرعد: 28]۔
صدق اللہ العظیم

وقال النبیﷺ ’’مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہٗ وَالَّذِیْ لَا یَذْکُرُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتِ‘‘ (اوکما قال علیہ السلام)۔

نہیں ہے ابتداء تیری ، نہیں ہے انتہا تیری
عبادت کر رہے ہیں روز شب ارض و سماء تیری
حجر میں، پھول میں، کانٹو میں، ذروں میں فضاؤں میں
نظر آتی ہے ہر سو شاہدِ مطلق ادا تیری
تیری تسبیح  پڑتے ہیں فلک والے، زمیں والے
ہو کی سرسراہٹ میں بھی ہے حمد و ثنا تیری

محترم سامعین کرام

السلام وعلیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج میں آپ حضرات کے سامنے ’’سکون قلب‘‘ کے عنوان کا سہارا لے کر چند معروضات پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سامعین کرام


آج دنیا میں ہر انسان سکون قلب کا متلاشی ہے ہر نوع انسانی اس جستجو اور سعی میں ہے کہ سکی طرح اس کو ’’سکون قلب‘‘  حاصل ہو جائے۔ چنانچہ 
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔ خوبصورت عمارتوں اور بنگلوں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ بینک بیلنس کی بہتات میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مال و دولت کی کثرت میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدارت وزارت میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تجارت و زراعت میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔زرق برق کپڑوں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نرم گداز بستروں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  نت نئے فیشنوں میں تلاش کیا
کسی نے سکون قلب کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  سونا چاندی کے چمک دمک میں تلاش کیا

لیکن رب کائنات فرماتے ہیں! ارے سکون قلب کے متلاشیو! کہاں بھٹکتے پر رہے ہو ۔۔۔۔ سنو سنو! ’’اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝‘‘ میں نے تو دل کا چین اور سکون اپنی یاد اور ذکر میں رکھا ہے، اگر سکون قلب چاہتے ہو تو مجھ سے دل لگا ؤ۔

شاعر نے کیا خوب کہا ۔۔۔۔۔۔

نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ہوتی ہے خدا کو یاد کرنے سے

سامعین محترم

حضرت ابوبکر ورّاق رحمہ اللہ تعالیٰ بڑے پائے کے بزرگ گزرے ہیں وہ فرماتے ہیں کہ قبل پر چھ ۶ قسم کی حالتیں وارد ہوتی ہیں ۔ یعنی حیات اور موت ۔۔۔۔ صحت اور بیمار۔۔۔۔۔ بیداری اور نیند۔۔۔۔۔۔۔ حضرت ابوبکر ورّاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قلب کی حیات ہدایت ہے۔۔۔ اگر ہدایت ہو گئی ہے تو سمجھ لیں کہ دل زندہ ہے۔۔۔۔ اور قلب کی موت گمراہی و صلالت ہے۔۔۔۔ اگر کسی قسم کی دل میں گمراہی پدیا ہو جائے تو سمجھ لیں کہ دل مردہ ہے۔۔۔ اور قلب کی صحت، طہارت اور صفائی ہے۔۔۔ اور اس طہارت کا حصول ایمان اور توحید کی بدولت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ اور اس کے مقابلے میں بیماری گندے تعلقات کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔۔۔۔ اور دل کی بیداری، ذکر الٰہی میں ہے۔۔۔۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے اس کا دل بیدار ہوتا ہے۔


حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :۔


مَثَلُ الَّذِیْ یَذْکُرُ رَبَّہُ وَالَّذِیْ لَایَذْکُرُ مَثَلُ الْحَیِّ وَالْمَیِّتت 

اللہ تعالیٰ کے ذکر کرنے والے کی مثال اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل ہے تو سمجھ لو کہ اس کے دل پر غفلت کی نیند 

میرے مدنی آقا ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔ تمہارے جسم میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے جب وہ درست ہو تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔۔۔۔ سنو ! اور وہ دل ہے۔

حاضرین گرامی

للہ تعالیٰ کے ذکر کرنے سے دل کو جو برکت، لذت، حلاوت ، طہارت اور سرور و طمانیت حاصل ہوتی ہے وہ کسی ایسے شخص سے مخفی نہیں جو کچھ دن اس پاک نام کی رٹ لگا چکا ہو اور ایک زمانہ تک اس کو حرز جان بنا چکا ہو۔
 ایسا آخر کیوں نہ ہوں خود خالق قلب کا فرمان ہے۔ اَلَا بِذِكْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ۝ 
یعنی دلوں کو راحت صرف اور صرف میری یاد سے حاصل ہوگا۔
 اس دعا کے ساتھ میں اپنی تقریر کو ختم کرتا ہوں۔ تمام حضرات سے گذارش ہے کہ ’’آمین‘‘ ضرور کہئے گا۔

اللہ وہ دل دے کہ تیرے عشق کا گھر ہو
دائمی رحمت کی تیری اس پہ نظر ہو
دل دے کہ تیرے عشق میں یہ حال ہو اس کا
محشر کا اگر شور ہو، تو نہ خبر ہو






Sukoon e Dil in Urdu
Sakoon e Dill Shayari
Sokoon e Qalb or Rahat e Dil
Peace of Hart.

Read More >>

Friday, 26 January 2018



سورۂ فاتحہ کے فضائل


الحمد للہ رب العٰلمین، والعاقبۃ للمتقین واصلوٰۃ والسلام علٰی سیّد الانبیاء والمرسلین، وعلٰی اٰلہ واصحابہ اجمعین

امّا بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم۔

اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱ۙ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۙ  مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۝۳ۭ  اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۝۴ۭ   اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝۵ۙ  صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْہِمْ ۥۙ غَيْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْہِمْ وَلَاالضَّاۗلِّيْنَ۝۷ۧ 
 وقال النبی صلّی اللہ علیہ سلّم : ’’کلُّ کَلَامٍ لَایُبْدَأفِیہِ بحمدِ اللہِ فُھُوَ َجْذَمُ‘‘ اَوْ کَمَا قَالَ صلی اللہ علیہ وسلم

حمد تیری اے خدائے لم یزل
ہے یہ اپنی زندگی کا ماحصل 
تو ہی خالق تو ہی خلّاق ہے
تو ہی ربِّ انفس و آفاق  ہے
تیری نعمت کی نہیں کچھ انتہا 
شکر تیرا کیا کسی سے ہو ادا

محترم اساتذہ کرام اور میرے ہم مکتب ساتھیو!۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج مجھے اس بزمِ سعید میں جس موضوع پر لب کشائی کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ ’’سورۃ فاتحہ کے فضائل‘‘ کے عنوان سے معنون ہے۔

سامعین محترم:۔

قرآنِ عظیم کی افتتاح جس سورت سے ہوتی ہے اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جو سورت قرآنِ کریم میں سب سے پہلے مکمل نازل ہوئی اس کو سورۃ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کو مکہ اور مدینہ دونوں مقدس مقامات میں نازل ہونے کا شرف حاصل ہوا، اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کو پورے قرآن کا خلاصہ قرار دیا جائے اس کو سورۃ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کو حق تعالیٰ شانہ اپنے عرش کا خزانہ قرار دے اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کو ’’ام الکتابِ، السَّبْعُ المَثَانِیْ، الشَّافِیَہْ، اَلْکَافِیہِ، الاسَاس‘‘ اور ‘‘الحمد‘‘ کے ناموں سے پکارا اور پہچانا جائے اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کی تلاوت ہر نماز میں ہوتی ہو اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کے بارے میں امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ’’لاصلوٰۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب‘‘ فرمائے اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کے ابتدائی الفاظ کے متعلق خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ’’کلّ کَلَامٍ لَایُبْدَأُ فِیْہ بِحَمْدِ اللہِ فھوَ اَجذذَم‘‘ فرمائے اس کو سورہ فاتحہ کہتے ہیں۔۔۔۔ جس سورت کے بارے میں محمد مصطفیٰ ﷺ کا فرمان ہو کہ ’’اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اس سورت جیسی کوئی سورت ، تورات ، انجیل، زبور، حتی کہ قرآن مجید میں بھی نہیں ہے‘‘ اس کو سورفاتحہ کہتے ہیں۔

حدیثِ قدسی ہے میرے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خالق و مالک کا قول نقل فرماتے ہیںجب بندہ نماز میں کہتا ہے ’’اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۝۱ۙ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’میرے بندے نے میرا حمد کی ۔۔۔۔ اور جب بندہ کہتا ہے’’لرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ۝۲ۙ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ‘‘میرے بندے نے میری تعریف و ثناء بیان کی۔۔۔۔ اور جب وہ کہتا ہے ’’مٰلكِ يَوْمِ الدِّيْنِ۝۳ۭ ‘‘ تو حق تعالیٰ فرماتے ہیں ’’میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی‘‘ اور جب بندہ کہتا ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ۝۴ۭ‘‘ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ‘‘میرے بندے میں تیری عبادت قبول کروں گا اور تیرا مددگار بنوں گا۔۔۔۔۔ اور جب بندہ کہتا ہے ‘‘اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَـقِيْمَ۝۵ۙ‘‘ تو اللہ جل شانہ فرماتے ہیں ‘‘میرے پیارے بندے میں تیری یہ دعا قبول کر کے تیری چاہت پوری کر دوں گا۔ الحمد للہ ثم الحمد للہ۔
کسی اللہ والے نے سورہ فاتحہ کا کیا خوب نقشہ کھینچا ۔۔۔۔۔!۔

حمد و ثنا ہو تیری کون و مکاں والے
اے رب! ہر دو عالم دونوں جہاں والے
بن مانگے دینے والے عرش و قرآن والے
گرتے ہیں تیرے در پہ سب آن، بان والے
یومِ جزا کا مالک ، خالق ہمارا تو ہے
سجدے ہیں تجھ کو کرتے تیری ہی جستجو ہے
امداد تجھ سے چاہیں سب کا سہارا تو ہے
تیری ہی بارگاہ میں یہ بھی اِک آرزو ہے
وہ رستہ دکھا تو پروردگارِ عالم
جس پہ چل گئے ہیں پرہیزگارِ عالم
نعمت ملی تھی جن کو، تجھ سے نگارِ عالم
اور نام جن کا اب تک ہے یادگار عالم
معتوب ہیں جو تیری ہی خالق یگانہ
گمراہ ہوئے جو تجھ سے اے صاحبِ خانہ
ہم عاجزوں کو  یا رب ان کی راہ نہ چلانا
کر اتنا کرم اب تو اے قادرِ توانا


وما علینا الا البلاغ المبین



Surah Fatiha ke Fazail in Urdu

Surah Fatiha ke Fawaid

Masla e Ilm e Gaib ki Wazahat

Benefits of Surah e Fatiha in Urdu Hindi

Read More >>

Thursday, 25 January 2018





والدین کا مقام

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد فاعوذ باللہ مِن الشیطان الرجیم
وَبِالوَالِدَینِ اِحسَانا۔ صدق اللّٰہ العظیم

 فرمان خدا ہے قرآن میں والدین سے حسن سلوک کا 
رب کو محبوب ہے وہ بندہ جو مطیع ہو والدین کا 
والدین کی رضا ہے درحقیقت رضا پروردگار کا 
جن پر نظر محبت سے ملتا ہے اجر حج مبرور کا 

گرامی قدر اساتذہ کرام اور میرے ہم سفر ساتھیو
السلام علیکم ورحمہ اللہ وبرکاتہ!۔

آج میں جس موضوع پر لب کشائی کی جسارت کرنا چاہتا ہوں / چاہتی ہوں وہ ہے والدین کا مقام

سامعین محترم!۔

دین اسلام میں اولاد پر والدین کے لیے جو کچھ لازم قرار دیا گیا ہے اس کی تعمیل سعادت اور اس سے روگردانی بدبختی کا باعث ہے اس لحاظ سے والدین کے وجودِ سعود کو ایک بے بدل سرمایہ جان کر ان کی جتنی قدرکی جائے اتنی ہی کم ہے۔

چنانچہ ارشد باری تعالیٰ ہے: اگر ماں باپ یا ان میں سے کوئی ایک تیری زندگی میں بوڑھے ہو جائیں تو ان سے کبھی ہو نہہ بھی مت کرنا اور نہ ان سے جھڑک کر بولنا اُن سے خوب ادب سے بات کرنا اور ان کے سامنے شفقت ، محبت اور انکساری کے ساتھ جھکے رہنا۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے فرمایا اگر کلمہ اُف سے نیچے بھی کوئی درجہ والدین کے تکلیف دینے کا ہوتا تو اللہ تعالیٰ اس کو بھی حرام قرار دے دیتے۔ 

تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ ایک شخص اپنی والدہ کو کمر پر اٹھائے طواف کروارہا تھاتو اس نے سے پوچھا کیا میں نے اپنی ماں کا حق ادا کر دیا ہے تو اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

ابھی تو نے ایک سانس کا حق ادا نہیں کیا اللہ اکبر کبیرا۔

سامعین گرامی مجھے کہنے دیجیے ماں کی آغوش انسان کی پہلی درس گاہ ہے ماں آنکھوں کا نور اور دل کا سرور ہے ماں کا سایہ ٹھنڈی چھائوں ہے ماں دکھوں کا مداوا ہے۔ ماں زندگی کی تاریک راہوں جس میں روشنی کا مینارہ ہے ماں کی دعا کامیابی کا راز ہے ماں کے قدموں تلے جنت ہے ماں دنیا کی عزیز ترین ہستی ہے ماں کے بغیر کائنات نا مکمل ہے۔

گرامی قدر!  توجہ فرمائے ماں ہمیں اڈھائی سال تک اُٹھاتی پھرتی رہیں اپنی چھاتیوں سے دودھ پلاتی رہیں ہمارے جھولے جھلاتی رہیں ہماری لاڈ اور ناز اُٹھاتی رہیں سردیوں کی رات میں اُٹھ اٹھ کر ہمیں کپڑے ڈھانپتی رہیں ہمارے پیشاب کے گیلے بچھونے پر خود سوتی رہی اور خشک بچھونا ہمارے لیے بچھاتی رہیں گرمیوں میں پوری رات آنچل سے ہوا جھلتی رہیں ہمیں ذرا عالم شعور میں پہنچی تو ہمارے لیے اچھا اچھا کھانا پکاتی رہیں ہمارے لیے حتی الوسع عمدہ عمدہ جوڑے بناتی رہیں لیکن صد افسوس میرے عزیز طالب علم ساتھیو آج ہم والدین کی ان قربانیوں کا مشقتوں کا اور ان ناقابل فراموش احسانات کا صلہ کیا دے رہے ہیں یہی نا کہ ہم ان کا کہنا نہیں مانتی دوسروں کے سامنے ان کو جھڑک دیتی ہے تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ اور سکول بھیجتے ہیں تو ہم بھاگی جاتی ہے اور ان کے ارمانوں کا خون کرتی ہے اور بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتی ہیں بعض تو الامان الحفیظ ان کو گالیاں دیتی ہیں اپنا دین و دنیا بربادکرتے ہیں /  کرتی ہیں اپنا مستقبل خراب کرتے ہیں / کرتی ہیں اپنے اوپر جنت حرام کرتی ہیں۔ اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناراض کرتے ہیں / کرتی ہیں سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ والدین کی رضا مندی میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے والدین جنت یا جہنم کا ذریعہ والدین کو راضی کرنے والا جنت اور ناراض کرنے والا جہنم میں جائے گا۔

والدین کے ساتھ حسن سلوک رزق اور عمر بڑھنے کا ذریعہ ہے والدین کی خدمت جہاد ہے والدین کو نظر رحمت سے دیکھنا مقبول حج کے برابر ہے والدین کی خدمت نفلی حج اور عمرے کے برابر ثواب ہے۔

آیئے آج سے ہم پختہ ارادہ کریں کہ آئندہ کبھی بھی والدین کے دل نہیں دکھائیں گی شوق اور لگن سے تعلیم حاصل کریں گیں اور ان کو کبھی شکایت کا موقع نہیں دیں گیں۔ 
کسی نے کیا  خوب کہا ہے:
 ذرا سی چوٹ لگے تو وہ آنسو بہا دیتی ہے  ؎
اپنی سکون بھری گود میں ہم کو سلا دیتی ہے
کرتے ہیں خطاء ہم تو چٹکی میں بھلا دیتی ہے
ہوتے ہیں خفا ہم جب تو دنیا کو بھلا دیتی ہے


مت گستاخی کرنا لوگو اس ماں سے کیوں کہ


جب وہ چھوڑ کے جاتی ہے تو گھر کو ویران بنا دیتی ہے

وما علینا اِلا البلاغ المبین

 Islam main Waldain ka Maqam


ترتیب : محمد اکرام پل احمد آباد
فاضل دارالحدیث راجووال
Read More >>

Wednesday, 24 January 2018



ختم نبوتﷺ

نحمد ونصلی علی رسولہ الکریم أما بعد! فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم

‘‘ مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّـبِيّٖن وَكَانَ اللہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِــيْمًا۝۴۰ۧ’’
[الاحزاب: 40]                                                                                     
 وقال النبیﷺ ’’اَنَا خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ۔‘‘۔
(صدق اللہ العظیم وصدق رسول النبّبی الکریم)                                      
وہ دانائے سبل، ختمِ رسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا، فروغِ وادی سیننا
نگاہِ عشق مستی میں وہی اوّل وہی آخر
وہی قرآن وہی فرقان، وہی یٰسین وہی طٰہ
محترم اساتذہ کرام اور میرے ہم مکتب ساتھیو!۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج میں آپ حضرات کے سامنے  ’’ختم نبوت‘‘ کے موضوع پر لب کشائی کرنے کی جسارت کرنا چاہتا ہوں۔
سامعین گرامی۔۔۔۔!۔
 مسئلہ ختم نبوت کا تعلق عقیدے سے ہے اور مذہب اہل سنت والجماعت کا مدار اسی پر ہے قرآن کریم کی ستّر ۷۰ آیات مبارکہ حضور علیہ السلام کے خاتم النبیین ہونے پر عادل و شاہد ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے نبی اکرمﷺ کو جس طرح نبوت اور رسالت عطا فرمائی اس طرح ختم نبوت اور ختم رسالت کی خلعت سے بھی سرفراز فرمایا ہے۔۔۔۔ آپﷺ نبی بھی ہیں اور خاتم النبیین  بھی ہیں۔۔۔۔۔ آپ رسول بھی ہیں اور خاتم النبیین بھی ہیں۔
صرف یہی بات نہیں کہ آپﷺ پر نبوت ختم ہوگئی ہے اور اب کوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔ اور رسالت ختم ہو گئی اب کوئی  رسول پیدا نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ بلکہ اللہ تعاولیٰ نے نبوت کا اختتام اور رسالت کی تکمیل بھی آپﷺ کے ذریعے فرمائی۔ قرآن کریم میں ہے۔
 ‘‘  وَاللہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۸’’
[الصف: 8]                                                    
یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہوا ہے کہ وہ حضرت محمدﷺ کو بھیج کر اپنے نور کو مکمل فرمائیں گے، چاہے کافروں کو کیسا ہی ناگوار کیوں نہ ہو۔ ارشد فرمایا!۔
‘‘ وَيَاْبَى اللہُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَہٗ وَلَوْ كَرِہَ الْكٰفِرُوْنَ۝۳۲’’
[التوبہ: 32]                                                              
یعنی: اللہ تعالیٰ اپنے نور کو مکمل کریں گے چاہے کفار کتنا ہی ناگوار محسوس کریں۔
چنانچہ حجۃ الوداع کے موقع پر قرآن پاک کی ایک اور آیت نازل ہوئی:۔
‘‘ اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا’’
[المائدہ: 3]                                                                                   
یعنی آج ہم نے آپ کے لئے آپ کے دین کو مکمل کر دیا۔ اور اپنی نعمت کا اتمام کر دیا۔۔۔ اور آپ کے لئے اسلام کو بطور دین کے پسند کر لیا۔۔۔۔۔ گویا یہ بشارت دی گئی کہ ہم نے اپنے نور کو مکمل کر دیا ہے یا یوں سمجھئے کہ نبوت کے ساتھ ساتھ ختم نبوت سے بھی آپﷺ کو سرفراز کیا گیا۔ ختم نبوت کتے ساتھ ساتھ اللہ نے اس نبوت کی تکمیل بھی کر دی۔ تکمیل کرنے اور اس کو مکمل کرنے کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس نبوت کو نور اور فیض رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔
پیغمبر کے ماننے والو! اب قیامت تک آنے والے انسانوں کی ہدایت کے لئے اسی نبوت اور رسالتِ کاملہ کو جس کے اندر کسی طرح کوئی کمی نہیں ہے اللہ تعالیٰ ذریعہ بنائیں گے قیامت تک آنے والے انسانوں کی رہبری اور رہنمائی کے لئے اب کوئی رہنما اور کوئی رہبر، معتبر اور قابل قبول نہیں۔۔۔۔ صرف رسول اللہﷺ کی رہنمائی اور رہبری ہی قابل قبول ہے۔
سرکار دو عالمﷺ نے فرمایا:۔
‘‘اَنَا خَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ’’
میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں اور ایک جگہ ارشاد فرمایا: ’’اِنَّ الرِّسَالَۃَ وَالنَّبُوَّۃ قَدِانْقَطَعَتْ فَلَا رَسُوْلَ بَعْدِیْ وَلَا نَبِیَّ بَعْدِیْ ‘‘۔
یعنی رسالت اور نبوت ختم ہو گئی ہے تو میرے بعد کوئی نبی اور کوئی رسول نہیں ہے۔
آج اگر کوئی جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرے تو وہ مسلیمہ کذّاب کہلائے گا یا اس کا حال اسود عنسی جیسا ہوگا  یا غلام احمد قادیانی کی طرح لیٹرین میں مرے گا۔
اللہ رب العزّت ہم سب کو تحفظ ختم نبوت کے لئے قبول فرمائے۔ آمین
وما علینا الاّ البلاغ المبین


Read More >>

Tuesday, 23 January 2018



سیرت محسنِ اعظم ﷺ

نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم أما بعد فأعوذ باللہ من الشیطان الرجیم


لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِيْ رَسُوْلِ اللہِ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ 
[الاحذاب: 21]                                               
وقال النبیﷺ ’’اِنَّمَا بُعِتُ مُعّلِّمًا‘‘ او کما قال علیہ السلام
رخ مصطفیٰ ﷺ کو دیکھا تو دیوں نے جلنا سیکھا
یہ کرم ہے مصطفیٰ ﷺ کا شب غم نے ڈھلنا سیکھا
یہ زمین رکی ہوئی تھی یہ فلک تھما ہوا تھا
چلے جب میرے محمدﷺ تو جہاں نے چلنا سیکھا

محترم اساتذہ (صدر جلسہ) و معززین سامعین!۔

  السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 آج اس محفل میں میرا موضوع سخن ’’سیرت النبیﷺ‘‘ کے مبارک عنوان سے معنون ہے۔
سامعین گرامی۔۔۔۔۔۔۔۔!۔
    سامعین ویسے تو سیرت کا معنی لغت میں کسی کارکردگی یا کارناموں کو احاطہ کرنے کے آتے ہیں۔ لیکن آج تک کوئی مصنف۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی محدث۔۔۔۔۔ کوئی مؤرخ ۔۔۔۔۔۔ کوئی مفکر۔۔۔۔۔۔ کوئی مدبر اور کوئی مقرر ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے آنحضرتﷺ کی پوری سیرت کا احاطہ کیا ہو۔۔۔۔۔۔! چنانچہ میں وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیرت کے چند پہلوؤں پر روشنی ڈالوں گا۔
حاضرین گرامی۔۔۔۔۔۔!۔
میرے آقا کی صورت حسین ہے ۔۔۔۔ سیرت بہترین ہے۔۔۔۔۔۔ صورت میں جمال ہے۔۔۔۔۔۔ سیرت میں کمال ہے۔۔۔۔۔۔۔ میرے محبوب پیغمبرﷺ کی سیرت کا باب اتنا وسیع ہے کہ اماں صدیقہ۔۔۔۔۔۔ پیغمبر کی رفیقہ۔۔۔۔۔۔۔ْ ازواج میں لئیقہ۔۔۔۔۔ امت پہ شفیقہ۔۔۔۔۔ اخلاق میں خلیقہ۔۔۔۔۔۔۔ کائنات میں باسلیقہ ۔۔۔۔ شان میں عجیبہ۔۔۔۔۔ نہایت خوش نصیبہ۔۔۔۔۔۔ خدا کی حبیبہ۔۔۔۔۔ باغ نبوت کی عندلیبہ وہ فرماتی ہیں ‘‘کَانَ خُلُقُہٗ اَلْقُرْآنُ‘‘ سارا قرآن میرے مصطفیٰ کی سیرت ہے۔

سامعین محترم۔۔۔۔!۔

   میرا پیغمبرﷺ امی ایسا ہے کہ ساری کائنات میں ان کا استاد نظر نہیں آتا۔۔۔۔۔۔ اور استاد ایسا ہے کہ ساری کائنات ان کی شاگرد ہیں۔۔۔۔۔ یتیم ایسا ہے کہ نہ باپ نہ دادا، پورے مکہ میں لاوارث نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔۔ ۔اور وارث ایسا ہے کہ ساری امتِ لاوارث کا وارث ہی محمدﷺ ہیں۔۔۔۔۔ حسین ایسا ہے کہ یوسف علیہ السلام کے دیکھنے والوں نے انگلیاں کاٹیں۔۔۔۔ میرے محمدﷺ کو دیکھنے والوں نے اپنے بچے شہید کروائے۔۔۔۔۔ گردنیں کٹوائیں۔۔۔۔۔ جانیں قربان کر دیں۔ حسین ایسا ہے کہ خدا نے اپنا محبوب بنالیا اور حیا اتنی ہے کہ عرب کی کنواری لڑکیاں بھی حیا کا مقابلہ نہ کرسکیں۔۔۔۔ بہادر اتنا ہے کہ اکیلا غزوۂ حنین میں کھڑے ہو کر کہتے ہیں ’’اَنَا النَّبِیّٗ لَاکَذِبْ اَنَاابْنُ عَبْدُ الْمُطَّلِبْ‘‘۔۔۔۔ نرم دل اور مہربان اتنا ہے کہ ساری زندگی کسی کو انگلی کا اشارہ بھی نہ کیا۔۔۔۔ میرے محبوبﷺ کی عجیب سیرت ہے بیک وقت حضورﷺ میں دو چیزیں ہیں۔
میرے مدنی آقا بہادر بھی ہیں۔۔۔۔شریف بھی ہیں۔۔۔۔ حسین بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ باحیا بھی ہیں۔۔۔۔۔ امی بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ استاد بھی ہیں۔۔۔۔۔۔ یتیم بھی ہیں۔۔۔۔۔ اور وارث بھی ہیں۔ 

سامعین مکرم۔۔۔۔!۔

مجھے کہنے دیجئے! میرے نبی مسکرا کر دیکھے تو جنت کا منظر بن جاتا ہے، غصے میں آجائے تو قیامت کا منظر بن جاتا ہے، قدم اٹھائے تو سنت بن جاتی ہے۔۔۔۔۔ گفتگو کرے تو حدیث بن جاتی ہے۔۔۔۔ عمل کرے تو شریعت بن جاتی ہے۔۔ عمر رضی اللہ عنہ آئے تو فاروق بن جاتا ہے۔۔۔۔ عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو ذوالنورین بن جاتا ہے، علی رضی اللہ عنہ آئے تو حیدر کرار بن جاتا ہے، معاویہ رضی اللہ عنہ آئے تو کاتب وحی بن جاتا ہے، ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ آئے تو امین الامۃ بن جاتا ہے، ڈاکو اور لٹیرے آئے تو محافظ و نگہبان بن جاتا ہے، ظالم و ستم گر آئے تو عادل اور ہمدرد انسان بن جاتا ہے، فاسق و فاجر آئے تو زاہد و پارہسا بن جاتا ہے۔۔۔۔۔ عرب کا چرواہا آئے تو زمانے کا مقتداء بن جاتا ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوا؟ کیونکر ہوا تھا؟ یہ انقلاب کیسے آیا تھا؟
میں عرض کروں یہ انقلاب حضورﷺ کی محنت سے بپا ہوا تھا۔ یہ انقلاب حضورﷺ کی سیرت پر چلنے اور عمل کرنے سے بپا ہوا تھا۔ یہ تبدیلی سیرت النبیﷺ کی انقلابی تعلیمات کی برکت سے آئی تھی۔ یہ تبدیلی سیرت النبیﷺکو اپنا امام اور مقتدا بنانے سے پیدا ہوئی تھی۔
گرامی قدر!
آج بھی وہ ہدایت ربّانی اور دعوت آسمانی موجود ہے اور سیرت کے جلسے بھی بہت ہو رہے ہیں۔ عیدمیلاد النبیﷺ کے لئے بڑے بڑے جلوس بھی نکل رہے ہیں۔ بارگاہ رسالت میںﷺ میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جارہی ہے۔

لیکن! وہ فضا اور ماحول نہیں بن رہے ہیں جو صحابہ کے دور میں تھا۔۔۔۔ چنانچہ اگر آپ وہ ماحول اور فضا پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمارے لئے سرور کائناتﷺ کی سیرت کی طرف رجوع ضروری ہے۔ اسی میں ہمارا علاج ہے۔
شاعر کہتا ہے۔۔۔۔!
اصلاح عالم کا اب سامان ہونا چاہیئے
سب کا دستو العمل سیرت النبیﷺ ہونا چاہیئے
یہی ہے آرزو سیرت مصطفیٰﷺ عام ہو جائے
سب سے اونچا پرچم، پرچم اسلام ہو جائے

وما علینا الّا البلاغ المبین



Seerat e Mohsin e Azam Sallallahu Alaihi Wasallam ky Inqlabi Iqdamat

Read More >>

Monday, 22 January 2018



آخری انسان جو جنت میں جائے گا

:اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں
 مسلمانوں سب سے آخری جنتی جو سب سے آخر میں جنت میں جائے گا۔جب پل صراط سے گذر رہا ہوگا۔
کبی وہ گرے گا، کبھی بیٹھے گا، کبھی کھڑا ہوگا۔آخر پل صراط سے گذر جائے گا۔
:آگ کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور کہے گا
اللہ تیرا شکر ہے جس نے مجھے آگ سے بچا لیا
آگے جائے گا۔سوال کرے گا۔
یاربی
اے میرے رب تو نے مجھے جہنم سےتو آزاد کر دیا۔
یہ سامنے درخت ہےاس کی چھاؤں میں مجھے پہنچا دیجیئے۔
:خالق و مالک صحیح بخاری کی روایت ہےفرمائے گے
میرے بندے کچھ اور تو نہیں مانگو گے؟
میں کچھ اور نہیں مانگو گا۔
وعدہ رہا۔ وعدہ ہو جائے گا۔
خالق و مالک وہاں پہنچائیں گے۔
!پھر کہے گا یا رب
فلاں درخت کی چھاؤں تو اس بھی پیاری ہے وہاں تک لے جائیے۔
:خالق و مالک فرمائیں گے
آدم کے بیٹےیہ کیاتم نے ابھی وعدہ کیا اور ابھی اسے بھول گئے۔
کہا نہیں خالق و مالک مجھ پر رحمت فرمائیے وہاں تک لے جائے۔
خالق و مالک وہاں تک جانے کا بندوبست فرمائیں گے۔
وہاں بیٹھے گاجنت کے قریب درخت دیکھے گا۔کہے گا یا ربی اے خالق و مالک وہاں تک پہنچا دیجئے
:خالق و مالک پھر فرمائیں گے
اتنا فراڈ اے آدم کے بیٹے ابھی تو نے وعدہ کیا اور ابھی بھول گئے
جنت کے قریب پہنچے گا۔کہے گا یا ربی  خالق و مالک اب مجھے جنت میں داخل فرما دیجیئے۔ 
:خالق و مالک فرمائیں گے
جاؤ جنت میں داخل ہو جاؤ
جب جنت کے پاس پہنچے گا۔جنت بھری ہوئے نظر آئے گی،واپس پلٹے گا، اور کہے گا یارب
اللہ آپ مجھ سے مذاق کر رہے ہیں، جنت تو بھری ہوئی ہے میں کہاں جاؤں 
خالق و مالک مسکرائیں گے۔ صحیح بخاری اور مسلم کی روایت بتاتی ہےکہ اللہ کے رسول بھی بیان کرتے وقت مسکرا گیئے اور کہا اللہ فرمائیں گے
میرے بندے جاؤ، تم کہتے ہو کہ جنت بھری ہوئی ہے جاؤ جتنی دنیا تھی اتنی اور دنیا اتنی اور دنیا دس دنیا اگر بن جائیں تو اتنی زمین اتنا مقام میں تجھے جنت میں نصیب کرتا ہوں۔جنت میں پہنچ جائے گا۔
یہ ادنیٰ جنتی کی بات ہو رہی ہے۔اعلٰی جنتی کی بات تو آئی ہی نہیں جنت میں جا کے کہے گا۔
رضیت یا رب رضیت یا رب
اللہ میں راضی ہو گیا۔
خالق و مالک فرمائیں گے تمنا یا عبدی تمنا یا عبدی
میرے بندے تمنا تو کر کہے گا یا ربی مجھے یہ بھی چاہیئے میرے بندے یہ بھی لے لو اللہ مجھے یہ بھی چاہیئے میرے بندے یہ بھی لے لویہاں تک کہ ساری خواہشات ختم ہو جائیں گی۔
پھر خالق و مالک اسے یاد کروائیں گےکیا فرمائیں گے میرے بندے تمہیں یہ نہیں چاہیئے ہاں اللہ میں بھول گیا مجھے یہ بھی چاہیئے میرے بندے یہ بھی لے لے سب چیزیں عنایت ہو جائیں گی۔
آواز آئے گی 
جب جنتی جنت میں جائے گا آواز دینے والے آواز دے گا، اوہ جنتیوں آج تم سے اللہ نے جو وعدہ دنیا میں کیا تھاوہ پورا کرنا چاہتے ہیں۔
جواب دیں گے جنتی
ابھی کچھ اور انعام ملنا ہے۔جہنم سے آزاد ہو گئے، جنت میں آگئے اور چہرے چمک رہے ہیں آواز آئے گی 
اوہ جنتیوآج تمہیں میں ایسی صحت سے نوازنا چاہتا ہوں جس کے بعد کبھی بیماری نہیں آئے گی ایسی جوانی دینا چاہتا ہوںجس کے بعد بڑھاپا نہیں آئے گا، ایسی نعمتیں دینا چاہتا ہوں۔ جو کبھی چھینوں گا نہیں اور ایسی زندگی دینا چاہتا ہوں جس کے بعد موت نہیں آئے گی ۔
تینتیس سال کا گھبرو جوان بن کے انسان جنت میں جائے گا۔ادنا جنتی سب خواہشیں پوری ہو جائیں گیں، کیسی کیسی خواہشیں 
قُـطُوْفُہَا دَانِيَۃٌ۝۲۳ كُلُوْا وَاشْرَبُوْا ہَنِيْۗـــــًٔــــۢا بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِي الْاَيَّامِ الْخَالِيَۃِ۝۲۴ 
خواہش کرے گا، خالق و مالک یہ پھل چاہیئے، خواہش کرنے کی دیر ہے، وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے وہ خوشہ قریب آجائے گا، جب اس خوشے کو لے لے گا
آج انسان امرود دیکھ کر توڑتا ہے، چار مہینے انتظار کرتا ہے لیکن جنت میں کیا ہوگا، ایک پھل توڑا ہے توڑ کے ابھی فارغ ہوا اس سے بہتر لگ جائے گا۔
:اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا
جنت کے پھل جس کی بابت بیان کرتے ہوئے اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں کہ جب ایک مرتبہ جنت دیکھائی گئی آگے بڑھ کے وہ خوشے لینا چاہیے، اور کہا اگر میں خوشے لے آتا، تو رہتی دنیا تک لوگ اس کو کھاتے رہتے وہ ختم نہ ہوتا۔ 
اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں: جب ساری کی ساری نعمتیں مل جائیں گی، جنتی جواب دیں گے، خالق و مالک کچھ اور بھی نعمت ہے، سب کچھ مل گیا ہے۔ رضیت یا رب، رضیت یا رب اللہ میں راضی ہو گیا۔ 
:سب نعمتوں کے بعد خالق و مالک کا دیدار ہوگا اور اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں
خالق و مالک نور کے پردے ہتا دیں گے پھر دیدار الٰہی ہوگا۔جنت کی ہر نعمت انسان جنت میں جا کے بھول جائے گا، جب اللہ کا دیدار ہو گا۔آواز آئے گی۔
سَلٰمٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْمٍ۝۵۸ 

خالق و مالک دیدار کروانے کے بعد دوبارہ نور کے پردے سامنے لے آئیں گے اور کہیں گے ، جنتیومیری طرف تم پر سلامتی ہو۔  اور آج تمہیں میں نے ایسی زندگی دے دی ہےجس کے بعد کبھی موت نہیں آئے گی۔
میری اللہ سے دعا کہ اللہ ہمیں اپنے دیدار کا مستحق بنائے۔ آمین یا رب العالمین




Read More >>


Copyright © 2016 - Ilm o Adab - All Rights Reserved
(Articles Cannot Be Reproduced Without Author Permission.)
| Powered By: Islamic Stories